Keywords
Urdu Speech on Muharram| محرم الحرام پر تقریر، واقعہ کربلا، شہادت حسین رضی اللہ عنہ speech on Muharram in Urdu, Muharram par taqreer Urdu
Urdu Speech on Muharram
ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ كَفٰى وَ سَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى أَمَّا بَعْدُ
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
صدرِ با وقار حَکَم صاحبان اور سامعین کرام!
میری تقریر کا مِحْوَر ہے ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘
حضرات!
دنیا میں روز اول ہی سے دو طاقتیں برسرِ پیکار رہی ہیں، ایک بدی کی طاقت اور دوسری نیکی کی طاقت۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ایک حق کی طاقت اور دوسری باطل کی طاغوتی طاقت۔ اور خدا کی یہ سنت رہی ہے کہ جب بھی باطل قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ کسی صاحب حق کو بھیجتا ہے جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ہاتھ سے ظلم کی تلوار چھین لیا کرتا ہے۔
قومِ نوح کی سرکشی توڑنے کے لیے حضرت نوحؑ۔
عاد کے گھمنڈ کو چور کرنے کے لیے حضرت ہودؑ۔
ثَمُوْد کے غرور کا طلسم پاش پاش کرنے کے لیے حضرت صالحؑ۔
قومِ لوط کی بے حیائی اور بے غیرتی کا علاج کرنے کے لیے حضرت لوطؑ۔ فرعون کی خدائی کا نشہ کافور کرنے کے لیے حضرت موسٰیؑ۔
اور اخیر میں دنیا کی شبِ دیجور کو صبحِ تاباں بنانے کے لیے حضرت محمد ﷺ تشریف لائے۔ سچ ہے:
جب ظلم گذرتا ہے حد سے، قدرت کو جلال آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے، موسیٰ کوئی پیدا ہوتا ہے
سامعین کرام!
حق و باطل کی اسی کشمکش کی ایک کڑی حضرت حسین کی ذات گرامی ہے، جنہوں نے ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا؛ بلکہ آگے بڑھ کر اس سے نَبَرْد آزما ہو گئے اور دنیا کو بتلا دیا کہ
بزدلی حد سے گذرتی ہے تو بنتی ہے یزید
شجاعت کی ہے معراج حسین ابن علی
اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسینی مشن دراصل ظلم و بربریت کے خلاف حق کی صدا بلند کرنا ہے۔ حق و باطل کی اسی کشمکش کی مثال کربلا کا دلدوز واقعہ ہے جس نے بتایا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، جس میں ایک شخص جرأت و ہمت کا جام چڑھاکر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہرِ ہَلاہَل کو کبھی کہہ نہ سکا قَنْد
حاضرین مجلس!
دنیا میں ظالم و مظلوم کی داستان بہت پرانی ہے۔ انسانیت کے خِرْمَن پر کئی بجلیاں گری ہیں، باغِ آدم میں کئی آندھیاں آئی ہیں، وحشت و بربریت کے ہاتھوں نے بارہا انسانیت کا منھ نوچا ہے؛ لیکن واقعۂ کربلا اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اس میں جہاں نواسۂ رسولؐ کو بےدردی سے شہید کیا جاتا ہے، وہیں جرأت و ہمت کی ایک نئی تاریخ شروع ہوتی ہے، حضرت حسین ہی کا مشن تھا جس نے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
آئیے ذرا تاریخ کے دریچے سے جھانک کر دیکھیں کہ اس پیغام نے تاریخ میں کتنے نقوش چھوڑے ہیں، تاریخ کا ایک ورق پلٹیے تو آپ سید التابعین سعید بن مسیب کو دیکھیں گے کہ حُکّامِ جَور کے حکم سے ان کی پیٹھ پر درے لگائے جارہے ہیں، مگر ان کی زبان اعلانِ حق میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئی ہے۔ ایک ورق اور الٹیے حضرت مالک بن انس نظر آئیں گے جن کی مَشْکَیں کَس دی گئی ہیں اور حکومت وقت کے حکم سے اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھاکر مدینے کی گلیوں میں گھمایا جارہا ہے اور اوپر سے پیہم تازیانے کی ضربیں پڑ رہی ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ عین ضربِ تازیانے کی حالت میں کوئی مجمع دیکھتے ہیں تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور پکارکر کہتے ہیں ’’مَنْ عَرَفَنِيْ فَقَدْ عَرَفَنِيْ، وَمَنْ لَّمْ يَعْرِفْنِيْ فَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ أَقُولُ أَنَّ طَلَاقَ الْمُكْرَهِ لَيْسَ بِشَيْءٍ‘‘ آگے بڑھیے آپ کو امام احمد بن حنبل نظر آئیں گے، معتصم باللہ جیسے قاہر و باجبروت فرماں روا کے سامنے کھڑے ہیں، آپ کو صرف اس وجہ سے زد و کوب کیا جا رہا ہے کہ وہ جس مسئلے کو قرآن و سنت کے خلاف سمجھتے ہیں اس کا ایک مرتبہ اقرار کرلیں مگر ان کے منھ سے صرف ایک ہی صدا نکل رہی ہے ’’أَعْطُوْنِيْ شَيْئًا مِّنْ كِتَابِ اللهِ وَ سُنَّةِ رَسُوْلِهٖ حَتّٰى أَقُوْلَ بِه‘‘ ماضی قریب کی تاریخ میں اگر آپ جرأت و ہمت کے متوالوں کو دیکھنا چاہیں تو مصر کو دیکھیے جہاں اخوانیوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے جن سے پہاڑوں کی چٹانیں بھی ہل جاتیں لیکن حق کے شیدائیوں نے یہ ثابت کردیا کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دبا ئیں گے
افغانستان میں روسی درندوں اور امریکی وحشیوں نے حق کی آواز کو دبانے کے لیے کیا کچھ نہ کیا، حضرت سید احمد شہید کی تحریک حق کو روکنے کے لیے اہلِ باطل نے کیسے کیسے منصوبے بنائے؟ مگر شمعِ ہمت و جرأت کے پروانے اور شہادت کے متوالے یہ کہہ کر میدان میں کود پڑے کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کِشْوَر کُشَائی
جنگ آزادی کے موقع پر علمائے کرام اور دانشورانِ عظام کو سولی پر لٹکایا گیا مگر آزادی کے فرزانے بے خطر میدان میں کود پڑے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
مختصر یہ کہ تاریخ کے صفحات پر ایسے بے شمار واقعات بکھرے پڑے ہیں جن میں ظلم کے خلاف حق کی صدا بلند کرنے والے یہ کہتے ہوئے نظر آتےہیں کہ
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
محترم سامعین!
دور حاضر کا ایک سرسری جائزہ لیجیے تو آپ کو پوری دنیا میں ظلم و بربریت، لوٹ کھسوٹ کے وحشت ناک مناظر نظر آئیں گے۔ فلسطین اسرائیل کے پنجۂ استبداد میں کراہ رہا ہے، عراق امریکی ظالموں کے ظلم و بربریت کا شکار ہے، مصر اور الجزائر میں اسلام پسندوں پر ابتلا و آزمائش کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، افغانستان امریکی نواز حکومت کی وحشت و بربریت کا نَخْچِیْر بنا ہوا ہے، پاکستان قبائلی عصبیت کا صَیْدِ زَبوں بن گیا ہے، پورے عالم عرب پر مغربی سامراجیت کا حملہ ہے۔ دوسری طرف ہندوستان جہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہے، جہاں ایک طرف یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کو دیومالائی تہذیب کے شکنجے میں جکڑکر ذہنی غلام بنالیا جائے، تو دوسری طرف فسادات، ظلم اور انسانیت سوز مظالم کی پوری داستان ہے۔
حق کے علمبردارو!
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آج پوری دنیا حق و عدالت سے محروم نہیں ہوگئی ہے؟ کیا تاریخ کی ساری شقاوتیں ایک ایک کرکے پلٹ نہیں رہی ہیں؟ اصحابِ کَہف پر جبر و طُغیان، فراعنۂ مصر کا ظلم و استبداد، نَمَارِدَۂ کَلداں کا غرور و تَمَرُّد، اصحاب مَدْیَن کا انکار و اعراض، قومِ عاد کا فسق و عدوان، یہ سب کے سب واپس نہیں آگئے ہیں؟ ہٹلر کی قہر انگیزی، چنگیز کی چنگیزی، ہلاکو کی سَطْوَت خیزی سامنے نہیں آرہی ہیں؟ کیا آج ایک سپرپاور ملک پورے عالم اسلام کو جہنم کی بھٹی میں نہیں جھونک رہا ہے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو اس کا حل کیا ہے؟ اس کا ایک ہی حل ہے، حسینی مشن کو آگے بڑھا ئیں۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا؟ کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ