26 جنوری یوم جمہوریہ پر تقریر | Urdu Speech on 26 January Republic Day

26 جنوری یوم جمہوریہ پر تقریر

از قلم: شہزاد غازی

نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم امّا بعد

میرے دوستو!
آج 26 جنوری 2023 ہے ہم لوگ چہترواں یوم جمہوریہ منا رہے ہیں ۔

اسی تاریخ یعنی26 جنوری 1950 کو اپنا ملک ہندوستان جمہوری ہوا یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لاگو ہوا، آزاد ہندوستان کا اپنا قانون بنانے کیلئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29 اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جن کو ملک کا موجودہ قانون کو بنانے میں 2 سال 11 ماہ اور 18 دن لگے تھے، دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر ایک شق پر کھلی بحث ہوئی، پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کرلیاگیا، اور 24 جنوری 1950 کوایک مختصراجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پردستخط کردیا 26 جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگو کرکےملک بھر میں پہلا ’’یوم جمہوریہ‘‘ منایاگیااس طرح ہر سال 26 جنوری ’’یوم جمہوریہ ‘‘ کے دن کے طور پر پورے ملک میں جوش وخروش کےساتھ منایاجاتاہے اور 15 اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کا قومی اور یادگار دن بن گئی ہے۔

دوستو!
جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملااس کیلئےبڑی سے بڑی قربانیاں دینی پڑی لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑےہیں، تب جاکر 26 جنوری کو جشن منانےکا یہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہواہے، انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 میں دور جہانگیری میں ہی انگلینڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے بہانے بھارت آئی اور تجارتی مراکز اور سینٹر کے سہارے پورے بھارت میں پھیل گئے اور 1707 میں اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ کے وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی معاملے میں مداخلت شروع کر دی اور 1857 میں مکمل بھارت پر قبضہ کرلیا، اس دوران بے انتہا حیوانیت ظلم اور قتل و غارت گری کرتے رہے مگر جذبہ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے انگریزوں کے ظلم پر ڈٹے رہنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی، آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹھا کہ ملک کا دستور کیسا ہو مذہبی ہو یا لامذہبی، اقلیت و اکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں؟ چنانچہ آئین ہند کے ابتدائی حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ ہم ہندوستانی عوام یہ تجویز کرتے ہیں کہ ’’ہندوستان کو ایک آزاد سماجوادی، جمہوری ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیٔ خیال، آزادیٔ اظہار رائے، آزادیٔ عقیدہ و مذہب و عبادات، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا، اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔‘‘

آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیاہے، 1971میں اندرا گاندھی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ ’’سیکولر‘‘ کا اضافہ کیا تھا۔

ہندستانی جمہوری نظام ایک بہترین جمہوری نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں اور یہی مختلف رنگارنگی تہذیب یہاں کی پہچان ہے۔ 26 جنوری کو اسی مساوی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لیے 26 جنوری کو ’’جشن جمہوریت‘‘ مناکر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین و مرتبین اور ملک کی آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے۔

محترم سامعین!
انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 میں دور جہانگیری میں انگلینڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے تجارت کے بہانے بھارت آیا اور انگریز تجارتی مراکز اور سینٹر کے سہارے پورے بھارت میں پھیل گئے، اس کے بعد 1707 میں اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی معاملے میں مداخلت شروع کردی، مگر ان کے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بھانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاہد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا وہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھا۔ انہوں نے 1757 میں جام شہادت نوش کیا، پھر 1799 میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور ٹیپو سلطان نے ملک پر جان نچھاور کردی، جس کی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخر و مسرت کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہماراہے‘‘، 1803 میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت ’’شاہ عالم ثانی‘‘ سے جبراً ایک معاہدہ لکھوایا کہ ’’خلق خداکی، ملک بادشاہ سلامت کا، اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ یہ معاہدہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکا ہے، وطنی آزادی اور مذہبی تشخص ان کے رحم و کرم پر ہوگی۔

ایسے بھیانک ماحول اور پرفتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے پوری جرأت و بیباکی کے ساتھ فتویٰ جاری کیا کہ ’’ہندوستان دار الحرب ہے‘‘ یعنی اب ملک غلام ہوچکا ہے؛ لہٰذا بلاتفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے۔ ان کے فتوے کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے، سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما الله آگے بڑھے، پورے ملک کا دورہ کرکے قوم کو جگایا اور ان میں حریت کا جذبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی۔ اور 1831 کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر انگریز اتحادیوں سے لڑکر جام شہادت نوش کیا۔ دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگیں، 1857 میں علماء نے پھر جہاد کا فتویٰ دیا جس کی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکۂ کارزار ایک بار پھر گرم ہوگیا، دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تھیں، اور ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے بےشمار عیسائی مبلغین (پادری) کو بھی میدان میںں اتاردیا تھا، جسے انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے۔

اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لیے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا برادہ ملادیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے، ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی، جس کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازمت کررہے ہندو مسلم سب نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دہلی کا رخ کیا اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے۔

مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی، اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقاعدہ قبضہ کرلیا، اور سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون (برما) جلاوطن کر دیا، نیز 1857 میں ہی شاملی کے میدان میں مرشد علماء حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، اور حافظ ضامن شہید رحمھم اللہ وغیرہم نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ کیا۔

1857 کی جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم و ستم کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہیں، جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلمان اور علماء تھے، اس لئے بدلہ بھی چن چن کر سب سے زیادہ انہیں سے لیا گیا، دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی نہیں تھی، چالیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا۔

30 مئی 1866 کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے ساتھیوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے نام سے پورے عالم میں مشہور ہوا، 1878 میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی نے ’’ثمرۃ التربیت‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد انقلابی مجاہدين تیار کرنا تھا، یہی وہ مولانا محمود حسن دیوبندی ہیں جو آگے چل کر’’شیخ الہند‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے -تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الہند- بزبان حکومت برٹش -ریشمی خطوط سازش کیس- انہی کی پالیسی کا حصہ تھی۔

اور 1911 میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سے الہلال اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پھونکا تھا، 1915 میں ریشمی رومال کی تحریک چلی، 1916 میں ہندو مسلم اتحاد کی تحریک چلی، 1917 میں مہاتما گاندھی جی نے چمپارن میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ گرہ تحریک چلائی اور 1919 میں ’’جمعیۃ الانصار‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جس کے پہلے ناظم مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے، وہیں 23 نومبر 1919 میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلاس میں باضابطہ ’’جمعیت علماء ہند‘‘ کی تشکیل ہوئی جس کے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے۔

1919 میں ہی امرتسر کے جلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار ہندوستانی شہید ہوئے، 1920 میں حضرت شیخ الہند نے ترک موالات کا فتویٰ دیا جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیت کی طرف سے شائع کیا، 1921 میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ ’’گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے‘‘

1922 میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے شدھی سنگھٹن تحریک شروع کی جس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، 1926 میں کلکتہ میں جمعیت علماء ہند کےاجلاس میں جس کی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی۔

1935 میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا، 1942 میں ’’انگریزو! ہندوستان چھوڑو!‘‘ تحریک چلی، بالآخر برٹش حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی، اور 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوگیا۔ 26 جنوری ’’یوم جمہوریہ‘‘ کے جشن زریں کے موقع پر آئیے ہم سب مل کر آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیں اور ’’یوم جمہوریہ‘‘ کے معماروں کو سچی خراج عقیدت پیش کریں۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہے ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

از قلم: شہزاد غازی


مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے