عید الاضحٰی کے موضوع پر تقریر، اردو تقریر، اصلاح البیان

عید قربانی

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علیٰ سید الأنبیاء و المرسلین محمد و اٰلہ و أصحابہ أجمعین۔ أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، فقد قال اللہ تعالیٰ: و إذ ابتلیٰٓ إبراھیم ربہ بکلمات فأتمّھن۔

برادران ملت!

حج کے مبارک ایام چل رہے ہیں، حجاج کرام کے قافلے مئے توحید سے سرشار کلمات تلبیہ ’’لبیک اللھم لبیک، لا شریک لک لبیک‘‘ گنگناتے ہوئے سوئے حرم رواں دواں ہیں۔ دلوں میں محبت الٰہی کی سوزش ہے۔ عشق خداوندی کی تپش ہے۔ اور خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی تجدید کا عزم و ولولہ ہے۔ وہی ابراہیم جن کی زندگی ایثار و قربانی، فداکاری و فرمانبرداری، وفاداری و اطاعت شعاری اور راہ حق میں صبر و استقامت اور شکر و رضا سے عبارت ہے۔ اللہ نے قدم قدم پر سیدنا ابراہیمؑ کو آزمایا تھا۔ ان کا امتحان لیا تھا۔ خود رب کائنات اپنے خلیل کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’و إذ ابتلیٰٓ إبراھیم ربہ بکلماتٍ فأتمّھن‘‘ اور یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تھا، تو ابراہیم نے ان کو کردکھایا۔

محبان اسلام!

ابتلاء و آزمائش کے سینکڑوں قصے ہیں۔ ایثار و قربانی کی ہزاروں داستانیں ہیں۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بے شمار کہانیاں ہیں؛ مگر جو فدائیت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی میں ملتی ہے، جو داستانِ بندگی خانوادۂ خلیل نے مرتب کی ہے، ایثار و قربانی کا جو نمونہ ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام نے پیش کیا ہے، اس کی نظیر سے تاریخ عالم خالی ہے۔  یہاں تو حال یہ ہے کہ امتحان لینے والا رب العالمین ہے اور امتحان دینے والا خلیل الرحمن ہے اور امتحان کا سلسلہ برسوں تک جاری ہے؛ لیکن کیا مجال کہ کسی سوال میں گھبرائے ہوں، جواب دینے سے کترائے ہوں۔ آزمائش میں قدم لڑکھڑائے ہوں۔ امتحان میں پیر ڈگمگائے ہوں۔ بلکہ عالم تو یہ ہے کہ ادھر سوال ہوتا ہے ادھر جواب دینا شروع، کہیں انکار نہیں، کہیں فرار نہیں، کوئی اعتراض نہیں؛ اس لیے کہ تعمیل حکم شیوۂ زندگی ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری شان بندگی ہے۔ اللہ اللہ کیا شان عبدیت ہے۔ ادھر ’’إذ قال ربہ أسلم‘‘ کا حکم ہوتا ہے، ادھر ’’أسلمت لرب العالمین‘‘ سے تعمیل ہورہی ہے اور بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں: إني وجھت وھي للذي فطر السمٰوات و الأرض حنیفاً و ما أنا من المشرکین، إن صلاتي و نسکي و محیاي و مماتي للہ رب العالمین، و بذلک أمرت و أنا أول المسلمین۔ (پ ۷، ع۸)

عزیزان ملت!

اعلان توحید کے جرم میں بابل و نینوا کے جابر و ظالم حکمراں نمرود نے خلیل اللہ ابراہیم کو دہکتے انگاروں اور بھڑکتے شعلوں کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا۔ تیاریاں عروج پر ہیں؛ مگر قلب ابراہیم پر کوئی خوف نہیں۔ جبکہ آگ کے ہولناک منظر کو دیکھ کر آسمان تھرّا رہا ہے۔ زمین کانپ رہی ہے، عرش الٰہی لرز رہا ہے۔ ملائکہ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کیسا امتحان ہے؟ کیسی آزمائش ہے؟ ایک طرف ایک تنہا ذات ہے، دوسری طرف پورا ملک ہے؛ لیکن امتحان لینے والا اور دینے والا دونوں پر کوئی اثر نہیں؛ کیونکہ امتحان لینے والا قادر مطلق ہے۔ لمحوں کے ہزارویں حصے میں بلکہ لمحوں سے پہلے ہی سب کچھ بدل سکتا ہے۔ اس کے سامنے اس آگ کی کوئی حقیقت نہیں۔ نمرودوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور امتحان دینے والا بھی انجام سے بے نیاز ہے۔ اس کو اپنے عشق پر اعتماد ہے۔ اپنی محبت پر ناز ہے کہ محبوب نے امتحان لیا ہے، عشق الٰہی نے پکارا ہے؛ لہذا ع

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

بہت سے مجنوں پیدا ہوئے۔ فرہاد پیدا ہوئے۔ عشاق پیدا ہوئے۔ لیکن محبوب کی رضا جوئی سوائے ابراہیم کے کون پیش کر سکتا ہے۔ اور سوائے رب العالمین کے احکم الحاکمین کے محبوب حقیقی ہونے کا حق کون ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جارہا ہے، ادھر ’’قلنا یا نار کوني برداً و سلاماً علیٰ إبراھیم‘‘ کا اعلان ہوتا ہے کہ اے آگ! گل ملت گلزار بن جا ’’فأنجٰہ اللہ من النار‘‘ اللہ نے نجات دی آگ سے۔

برادران ملت اسلامیہ!

اس امتحان کے ذریعے دنیا کو حق پرستی اور عشق الہی اور اطاعت شعاری کا وہ نادر نمونہ دکھانا تھا جو محبت کرنے والوں کی معراج ہے۔ جہاں پہنچ کر بندہ سراپا اطاعت بن جاتا ہے۔ دینی فطرت میں ڈھل جاتا ہے۔ اور اسی کے ساتھ محبوب کی نوازشات کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ کہ کس طرح ’’إني جاعلک للناس إماماً‘‘ کا تحفہ عطا کرتا ہے، ’’إنہ کان صدیقاً نبیاً‘‘ کا خطاب دیتا ہے اور ’’أرادوا بہ کیداً فجعلناھم الأخسرین‘‘ فرماکر اپنے عاشق صادق کے دشمنوں کو ناکام و نامراد بناتا ہے۔ اور ’’و اتخذ ابراھیم خلیلاً‘‘ فرماکر اپنی خلت سے سرفراز کرتا ہے۔

پیروکاران ملت اسلامیہ!

یہ اس ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کی داستان ہے جس کے طریقے کو اللہ نے دین بنایا ہے اور صاف صاف اعلان کردیا ہے: و من یرغب عن ملۃ إبراھیم إلا من سفہ نفسہ‘‘ کہ ملت ابراہیم سے صرف وہی شخص اعراض کرسکتا ہے جو نرا احمق ہوگا۔

عاشقان شمع رسالت!

اس امتحان سے گذرنے کے بعد خلیل اللہ علیہ السلام عراق سے شام آکر آباد ہوچکے ہیں، دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے، لیکن زندگی میں ایک کمی ہے، عمر عزیز کا اکثر حصہ گذر چکا ہے؛ لیکن کوئی اولاد نہیں ہے۔ شفقت پدری کسی نونہال کو آغوش میں ہُمکتا دیکھنا چاہتی ہے۔ ماں کی ممتا ایک لخت جگر کو سینے سے چمٹانے کو بے قرار ہے۔ آخر کار رحمت الٰہی کو جوش آتا ہے اور اپنے خلیل کی زندگی میں بہار پیدا کرتے ہیں، پژمردہ چمن میں نئی جان پڑتی ہے۔ اور سیدنا ابراہیمؑ کو سیدنا اسماعیلؑ کی بشارت سنائی جاتی ہے: و لقد جاءت رسلنا إبراھیم بالبشریٰ‘‘ کا اعلان ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ بطن ہاجرہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس نوازش پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ حمد باری میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں: الحمد للہ الذي وھب لي علی الکبر إسمٰعیل و إسحاق، إن ربي لسمیع الدعاء‘‘ (القرآن)

برادران ملت!

ابھی نومولود اسماعیل کی ولادت کا سرور طاری تھا۔ کیف و نشاط کے حسین و جمیل لمحات سے ماں باپ گذر رہے تھے۔ شکر و حمد کے نذرانے پیش کررہے تھے؛ کہ یہی ان کی فطرت تھی۔ ہر حال میں شکر و رضا، ہر لمحہ حمد و ثناء؛ لہذا جب جب ننھے اسماعیل پر نظر پڑتی، بے اختیار محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے اور حمد باری میں محو ہوجاتے؛ کیونکہ نبی اللہ تھے، خلیل اللہ تھے۔

ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ نومولود بچے کا جشن ولادت جاری تھا کہ اچانک حکم الٰہی ہوتا ہے: اے ابراہیم! اپنے لخت جگر کو اس کی پیاری ماں کے ساتھ وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آؤ۔ شام کے سرسبز و شاداب علاقے سے نکال کر بے آ و گیاہ چٹیل میدان میں بسانے کا حکم دیا جارہا ہے، جہاں نہ کوئی آدم ہے  نہ آدم زاد، نہ پانی ہے نہ سایہ، ہر طرف وحشت برستی ہے،  ہُو کا عالم ہے۔

کتنا عظیم امتحان ہے۔ مدتوں کی آرزو ابھی پوری ہوئی ہے، بڑھاپے کی حالت میں ایک سہارا نصیب ہوا ہے۔ مستقبل کا خدمت گذار، اطاعت گذار پیدا ہوا ہے۔ اور ابھی اس سے طبیعت سیر بھی نہیں ہوئی، بے قرار دل کو قرار بھی نہیں ملا،  محبت کو سکون بھی نہیں ملا کہ جدا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔

مگر اللہ اکبر! کیا شان بندگی ہے۔ محبوب حقیقی کے مطالبے پر محب صادق ابراہیم خلیل اللہ اطاعت کی کتنی عظیم مثال قائم کرتے ہیں کہ فوراً اپنے گھرانے کو تیار کرتے ہیں۔ جبرئیل امین براق لیکر حاضر ہوتے ہیں اور تین آدمی پر مشتمل یہ کاروانِ ایمان و عزیمت جانب حرم رواں دواں نظر آتا ہے۔ اطاعت و بندگی کی ایک تاریخ مرتب ہورہی ہے۔

عالم انسانیت کی سربلندی کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے۔ دعاء خلیل کی تکمیل کا سامان ہورہا ہے۔ لولاک لما خلقت الأفلاک کا خطاب جس ذات کے لیے تھا اس کی بعثت کے لیے ایک بلد امین کو بسانا مقصود ہے اور اس گھر کی تعمیر مقصود ہے جس کو اس کائنات میں اول بیت ہونے کا شرف حاصل ہونے والا ہے۔ جس کو مثابۃً للناس کا اعزاز ملنے والا ہے۔ جس کو قیامت تک کے لیے رشد و ہدایت کا مرکز بننا ہے؛

لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر، نور نظر اور پیاری بیوی سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کو اس ارض مقدس میں آباد کرتے ہیں اور بارگاہ ذو الجلال میں عرض کرتے ہیں: ’’ربنا إني أسکنت من ذریتي بوادٍ غیر ذي زرع عند بیتک المحرم، ربنا لیقیموا الصلاۃ فاجعل أفئدۃً من الناس تھویٰ إلیھم و ارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون‘‘ اے میرے رب میں انے اپنی اولاد کو اس وادی غیر ذی زرع میں تیرے محترم گھر کے قریب آباد کردیا ہے۔ اے میرے پالنہار اس لیے تاکہ نماز قائم کریں۔ تو آپ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجیے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا کردیجیے۔  ہوسکتا ہے کہ یہ شکر گزار بن جائیں۔

برادران اسلام!

یہ ایک دردمند باپ کی دعاء تھی۔ ایک اطاعت گزار بندے کی دعاء تھی، جس نے اپنے جذبۂ عشق سے سرشار ہوکر فداکاری کا ایسا نمونہ پیش کیا تھا کہ بے آب و گیاہ، لق و دق صحراء میں بغیر کسی ظاہری اسباب زندگی کے محض اپنے پروردگار کی قدرت کاملہ پر یقین کرتے ہوئے اپنے خاندان کو آباد کردیا تھا اور مذکورہ دعاء مانگ کر واپس چل پڑے تھے۔ اس شان سے چلے کہ بیوی کی محبت بھی نہ روک سکی۔ بچے کی چہکار بھی زنجیر پا نہ بن سکی۔ اور بیوی بھی ایسی کہ کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں ہے۔ آئندہ کل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں۔ اللہ اکبر! کیسا عظیم گھرانا تھا۔ کتنے عظیم لوگ تھے۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جن پر ملائکہ رشک کرتے ہیں، جن پر بندگی نازکرتی ہے، انسانیت فخر کرتی ہے کہ کوئی محبت کی ایسی مثال تو دکھائے، ایثار و قربانی کا ایسا نمونہ تو پیش کرے۔

سامعین کرام!

سیدنا ابراہیمؑ واپس ملک شام چلے گئے اور ادھر ماں اور بیٹا اس ویران میدان میں بیٹھے ہیں۔ دھوپ کی شدت آفتاب کی تپش اور گرمی کی زیادتی سے سوختہ جاں ہیں۔ ننھے اسماعیل شدت پیاس سے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ممتا کی ماری ماں پانی کی تلاش میں بے تابانہ دوڑ رہی ہیں۔ دل مضطرب کو قرار نہیں۔

کبھی کوہ صفا پر چڑھتی ہیں، کبھی مروہ پر جاتی ہیں۔ عجیب بے کلی ہے۔ غور کیجیے کیا حال رہا ہوگا۔ ایک ماں کے دل سے پوچھیے۔ اس کی نگاہوں سے دیکھیے کہ معصوم فرزند تڑپ رہا ہے۔ حلق میں کانٹے پڑگئے ہیں، جاں بلب ہے، کیا کیا نہ حالات گذرے ہوں گے مگر ایک حرف شکایت زبان پر نہیں؛ اس لیے کہ خاندان خلیل اللہ ہے۔ ایمان کی استقامت ساتھ ہے۔ صبر و توکل زاد راہ ہے۔ ہر حال میں انابت و اطاعت شعار زندگی ہے۔ آخرکار رب العالمین کو پیار آتا ہے۔ رحمت باری متوجہ ہوتی ہے۔ قدرت خداوندی جوش میں آتی ہے اور سیدنا ابراہیم کے فرزند سیدنا اسماعیل کی ایڑیوں کی رگڑ سے چٹیل زمین سے اس مبارک پانی کا چشمہ ابل پڑتا ہے جس کی شان میں حبیب کبریا سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: ’’ماء زمزمَ لما شُرِبَ لہ‘‘ کہ آب زمزم جس مقصد کے لیے پیا جائے فائدہ پہنچائے گا۔ برکت ہی برکت ہے، رحمت ہی رحمت ہے۔ اس لیے کہ ذبیح اللہ کے توسط سے ملا ہے۔ خلیل اللہ کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ سیدہ ہاجرہ کے ایثار و قربانی کا نتیجہ ہے؛ لہٰذا ہر مرض کی دوا ہے شفا ہی شفا ہے۔

بزرگان اسلام!

آج میڈیکل سائنس کے ماہرین نے آب زمزم پر برسوں تحقیقات کے بعد اعتراف کرلیا ہے کہ آب زمزم ستر سے زائد امراض کے لیے دوا ہے۔ سرطان جیسے موذی مرض کے لیے مفید ہے۔ اللہ اکبر! دنیا والوں کو کتنا بڑا انعام دیا گیا ہے۔ انسانیت کے لیے کتنی برکتیں نازل کی گئی ہیں۔

برادران ملت اسلامیہ!

ابھی ایک عظیم امتحان باقی تھا سب سے عظیم سب سے بڑا امتحان عشق اور سیدنا ابراہیم و اسماعیل عشق کی بلندیاں طے کررہے تھے۔ عشاق کے لیے نقش دوام چھوڑ رہے تھے۔ ان ہی نقوش پر اسلام کے قصر جمیل کو قائم کرنا تھا۔ لہذا کسوٹی پر پرکھا جارہا تھا۔ کندن بنایا جارہاتھا۔ سنوارا جارہا تھا۔ لہذا اگر میں کہوں تو برمحل ہوگا کہ ؎

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

مگر امتحان دینے والا تیار تھا، ثابت قدم تھا۔ پیکر استقامت تھا۔ اور جب حضرت اسماعیل کچھ اور بڑے ہوگئے،  پاؤں چلنے لگے۔ شعور کے دریچے کھلنے لگے۔ باتوں کو سمجھنے لگے۔ تو آخری امتحان کا وقت آتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: فلما بلغ معہ السعی قال یا بني إني أری في المنام أني لأذبحک‘‘ جب اسماعیل ان کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہوگئے تو کہا کہ اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں۔ ایک شفیق باپ اپنے نور نظر کو حکم الہی سنارہا ہے؛ اس لیے کہ نبی کا خواب بھی وحی الہی ہے۔ امر خداوندی ہے۔ اس مفہوم کو ابو الاثر عبد الحفیظ جالندھری نے شاہنامے میں یوں ادا کیا ہے:

پہاڑی پر سے دی آواز اسماعیل ادھر آؤ

خدائے واحد قدوس کا پیغام سن جاؤ

خداوند قدوس کا پیغام سناکر خلیل اللہ نے لخت جگر نور نظر سے فرمایا: ’’فانظر ماذا ما تریٰ‘‘ اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ تم کیا کہتے ہو؟ یہ سوال اس بچے سے کیا جارہا ہے جس کو ذبح کرنے اور قربانی کرنے کی خبر سنائی گئی ہے۔ اور اسی سلسلے میں سوال کیا گیا ہے۔ جان کا معاملہ ہے۔ زندگی کا مسئلہ ہے۔ ایک بے زبان جانور بھی جان بچانے کے لیے جد و جہد کرتا ہے۔ یہاں تو معاملہ ایک انسان کا ہے۔ مگر قربان جایئے اس فدائیت پر، قربان جایئے اس اطاعت پر، قربان جایئے اس ایمان پر جو اسماعیل علیہ السلام کا خاصہ تھا۔ بڑے عزم و حوصلے کے ساتھ عشق الٰہی میں غرق ہوکر کمال یقین کے ساتھ عرض کرتے ہیں کوئی خوف نہیں، کوئی پرواہ نہیں: ’’یٰٓأبتِ افعل ما تؤمر ستجدوني إن شاء اللہ من الصابرین‘‘ اے ابا جان! جو امر الہی ہے اس پر عمل کیجیے، یہ جان حاضر ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھکو صابرین میں سے پائیں گے۔

برادران ملت!

قربانی کرنے والا کمر کس لیتا ہے۔ قربان ہونے والا سر تسلیم و رضا خم کردیتا ہے۔ تیاری ہونے لگی، ماں نے اسماعیل کو نہلایا، خوشبو میں بسایا، اور بوڑھا باپ عزیمت کا پیکر اطاعت کا خوگر چھری لیتا ہے اللہ اکبر! کیسا دل ہے کہ کانپتا نہیں، کیسا بیٹا ہے کہ ڈرتا نہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے سوئے مقتل چلا جارہا ہے۔

یہ ابراہیم و اسماعیل نہیں جارہے ہیں، اطاعت جارہی ہے، عشق مجسم جارہا ہے، سراپا محبت جارہی ہے۔ ایمان و یقین جارہا ہے، جو پیکر ابراہیم میں ڈھل گیا ہے۔ جو روح اسماعیل میں اتر گیا ہے۔ ورنہ کوئی باپ کہیں اپنے سہارے کو ختم کرسکتا ہے؟ اپنے گوشۂ جگر کو ذبح کر سکتا ہے؟ کوئی بیٹا اطاعت کی اس معراج کو پہنچ سکتا ہے؟

سوچیے غور کیجئے! کیسا عجیب منظر رہا ہو گا۔ ادھر کاروان طاعت و بندگی سفر کر رہا ہے، ادھر زمین و آسمان لرز رہے ہیں، ملائکہ حیرت زدہ ہیں کہ یہ خاک کا پتلا خیر و شر کا مرکب عشق الٰہی کی ان بلندیوں پر کیوں کر پہنچا؟

ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ مخلوق زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے گی اس لیے کہ اطاعت و بندگی تو ہماری فطرت ہے لیکن آج ہم ’’انی اعلم ما لا تعلمون‘‘ کا حکم ربانی دیکھ رہے ہیں۔ اس انسان سراپا نسیان کی اطاعت گزاری کا منظر دیکھ رہے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ خلافت کا حق اسی کو حاصل ہے امامت کا منصب اسی کو زیب دیتا ہے جو اطاعت و بندگی میں ملائکہ سے بڑھ جائے یقینا وہ اشرف المخلوقات ہے اکرم الخلائق ہے لقد کرمنا بنی آدم کا تحفہ اسی کو ملنا چاہیے تھا۔

پیروان ملت ابراہیم!

ذابح و مذبوح چلے جارہے ہیں آبادی سے دور مکہ سے باہر وادی مِنیٰ میں پہنچتے ہیں ابلیس اسماعیل کو ورغلاتا ہے بھڑکاتا ہے ڈراتا ہے شاید اس کو احساس نہیں کہ یہ خاندان ابراہیم ہے۔ قافلہ تسلیم و رضا ہے۔  اسلام جس کا شعار ہے، ایمان جس کا وقار ہے، اطاعت ربانی جس کا نصب العین ہے، عشق جس کی معراج ہے لہذا ایک بس نہیں چلتی۔ جب باپ بیٹے منیٰ کے آخری سرے پر پہنچتے ہیں تو باپ عزم کرتا ہے کہ بیٹے کو ذبح کرے تعمیل ارشاد باری کرے تو بیٹا عرض کرتا ہے ابا جان!  اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں۔ مبادا آپ کی پدرانہ شفقت جوش میں آجائے، دل نرم پڑ جائے، ارادہ کمزور ہوجائے اور امر الٰہی کی تکمیل نہ کرسکیں۔ بہرحال انسان ہیں باپ ہیں دل میں میری محبت موجزن ہے۔ اگر کوئی کوتاہی ہوگئی تو عشق بدنام ہو جائے گا۔ محبت رسوا ہو جائے گی ایمان پر آنچ آئے گی۔

اطاعت پر انگلی اٹھے گی بند گی پر شبہ ہوگا عبادت میں کھوٹ پیدا ہو جائے گا۔امانت میں خیانت ہو جائے گی۔ دیانت غیر معتبر ہوجائے گی۔ عہد مجروح ہو جائے گا،  خاندان خلیل اللہ ہدف ملامت ہوگا کہ عشق ربانی کا دعوی عمل میں ناکام ثابت ہوا، اس لیے اباجان آنکھیں بند رکھیے۔ نہ مجھ کو دیکھیں گے نہ محبت پھوٹے گی، نہ پیار روئے گا۔ یہ کون مشورہ دے رہا ہے ایک معصوم بچہ ہے جس کو معلوم ہے کہ سانس کا رشتہ لمحوں میں ختم ہو جائے گا زندہ وجود لاش میں تبدیل ہو جائے گا مارنے والا کوئی غیر نہیں باپ ہوگا مرنے والا کوئی دوسرا نہیں بیٹا ہوگا روکنے والا کوئی نہیں ہے آنسو بہانے والا کوئی نہیں ہے جان بچانے والا کوئی نہیں ہے۔

برادران اسلام!

حضرت ابراہیم علیہ السلام مشورہ قبول کرتے ہیں اور بیٹے کو اوندھے منھ زمین پر لٹاتے ہیں، قبلہ رخ کرتے ہیں اور اللہ اکبر: گلے پر چھری پھیر تے ہیں مگر یہاں تو ذبح کرانا مقصود نہ تھا دنیا کو بندگی کا نمونہ دکھانا تھا عشق کا تعارف کرانا تھا محبت سے روشناس کرانا تھا اطاعت کی پہچان کرانی تھی کہ عشق اس کو کہتے ہیں اطاعت اس کو کہتے ہیں محبت اس کو کہتے ہیں یہی ایمان مطلوب ہے یہی ادا مطلوب ہے یہی شان مقصود ہے۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا 

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

شیدائیان اسلام!

جب ادھر باپ بیٹے نے سپردگی اور تابعداری کا یہ اعلی مظاہرہ کیا تو اس خالق ارض و سما قادر مطلق نے بھی اپنی شان رحمت کا اظہار فرمایا قرآن کریم نے اس منظر کو اس بلیغ انداز میں بیان کیا ہے: "فلما اسلما وتلہ للجبین و ناديناه ان یا ابراهيم قد صدقت الرؤيا ان كذلك نجزي المحسنين ان هذا لهو البلاء المبين و فديناه بذبح عظيم.”

پھر جب دونوں نے حکم مانا اور ابراہیم نے اسماعیل کو پیشانی کے بل پچھاڑا اور ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم تحقیق کہ تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک ہمارا یہ حکم قربانی تو محض صریح آزمائش تھی اور ہم نے اس کا بدلہ دیا ایک بڑے جانور سے جس کو حضرت جبرئیل بہشت سے لائے تھے ایک مینڈھا تھا جو حضرت اسماعیل کے فدیہ میں بھیجا گیا تھا۔

سامعین کرام!

ابتلاء و آزمائش کے طویل دور پر محیط یہ ایک ایمان افروز داستان ہے۔ آج اسی قربانی کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگار بنا دیا گیا ہے۔ ہر سال دسویں ذی الحجہ کو اس قربانی کی تجدید ہوتی ہے۔ اس واقعہ کو یاد کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ تمام ملت اسلامیہ کو اس قربانی کی تجدید کا امر ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ اسلام ملت ابراہیم ہے۔ لہذا ایثاروقربانی چاہتا ہے۔ وہ عظیم الشان قربانی جو ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے پیش کی تھی۔ ایک مرتبہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حبیب محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! قربانی کیا ہے؟ فرمایا سنۃ ابیکم ابراہیم یہ تمہارے جدامجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

حضرات!

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی آنے والی نسلوں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے اس کو زندہ رکھنے کے لیے جانوروں کی قربانی فرض کر دی گئی کہ جب بندہ مومن قربانی کرے تو وہ ذبح عظیم کو یاد کرے اپنے دل میں وہی عزم و حوصلہ پیدا کرے شعوری طور پر ان لمحات کو یاد کرے اور یہ طے کرے کہ آج اگرچہ میں جانور پیش کر رہا ہوں مگر اگر ضرورت پڑی تو اپنی جان اپنا مال اپنا سب کچھ قربان کر دوں گا راہ حق میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا اس لیے کہ میں ابراہیم خلیل اللہ کا پیروں ہوں، اسماعیل ذبیح اللہ کا متبع ہوں، رسول اللہ کا امتی ہوں، ملت ابراہیمی کا تابع ہوں ہے۔ میرا ترانہ وحدت ہے، میرا عزم و شعار قربانی ہے۔ ان صلاتی و نسکی و  محیای و مماتی للہ رب العالمین۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قربانی اسلامی تعلیمات کے مطابق منانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے