نو مسلموں کے احکام قسط ۱۲ | نو مسلموں کے روزہ اور اعتکاف کے احکام | اسلام سے پہلے کے روزوں کا حکم

نو مسلموں کے احکام، قسط:۱۲

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
نو مسلموں کے روزہ اور اعتکاف کے احکام
اسلام سے پہلے کے روزوں کا حکم
قبول اسلام کے بعد روزے کا حکم
قبول اسلام والے دن کے روزے کی قضا
قبول اسلام والے دن امساک کا حکم
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۲
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۲

 

نو مسلموں کے روزہ اور اعتکاف کے احکام

اسلام کا دوسرا اہم فریضہ روزہ ہے، جس کی فرضیت اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی محبت اور پہلے فریضہ نماز کی قدر و قیمت رچ بس گئی تھی۔ یعنی ہجرت کے دوسرے سال روزہ فرض ہوا اور اس کے لئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: یآ أیھا الّذین اٰمَنُوا کُتِبَ علیکم الصیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتقون۔ (سورۃ البقرۃ: آیۃ۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھےجو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔

اس آیت میں ’’اٰمَنُوا‘‘ کے ذریعے ایمان والوں سے خطاب ہوا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اور صرف انہی لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے جو ایمان قبول کرلینے کی وجہ سے شریعت کے مکلف ہیں۔

اسلام سے پہلے کے روزوں کا حکم

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی شفیق و مہربان ہے۔ چنانچہ اس کریم و رحیم آقا کا ایک کرم یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی کے کچھ سال حقیقی مالک کو بھول کر گذار چکا تو اس پر سے رحیم آقا نے ان احکام کو ہٹالیا، جن میں اس کے لئے مشقت و پریشانی تھی۔ چنانچہ اسلام قبول کرنے کے بعد جتنے سال کسی نے حالت کفر و شرک میں گذارے ہیں ان کی قضا اس کے اوپر لازم نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اسلام لانے سے اس کے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اعلان ہے: قل للّذین کفروا إن ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف۔(سورۃ الأنفال: آیۃ۳۸) اے محمد! (ﷺ) آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں گے اور (اسلام قبول کرلیں گے) تو ان کے سارے گناہ جو (اسلام سے پہلے) ہوچکے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے۔

علامہ ابن قدامہ مقدسی حنبلیؒ فرماتے ہیں: و لا یجب قضاء ما مضی في قول عامۃ أھل العلم۔ و قال عطاء: علیہ القضاء۔ (الشرح الکبیر: ج۷ ص۳۶۰) عام اہل علم حضرات کے نزدیک جو ایام گذرچکے ہیں ان کی قضا لازم نہیں ہے۔ اور عطاؒ کا قول یہ ہے کہ اس پر قضا لازم ہے۔

نیز ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں کہ گذشتہ ایام کی قضا اس پر اس لئے لازم نہیں ہے کہ اگر لازم کردیا جائے تو اسلام سے تنفر پیدا ہوگا۔ (الفقہ الإسلامي و أدلتہ، وھبہ زحیلی، الھدیٰ انٹرنیشنل دیوبند: ج۱ ص۶۱۱)

قبول اسلام کے بعد روزے کا حکم

البتہ اتنا ضروری ہے کہ جب سے اسلام قبول کیا ہے، اس کے بعد جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آئے گا، روزہ رکھنا اس پر لازم ہوگا۔ چاہے درمیان رمضان اسلام قبول کرے، تب بھی اگلے دن سے روزہ اس پر فرض ہوں گے؛ اس لئے کہ وہ اسلام کے احکام کا مکلف ہوچکا ہے۔ شوافع کا یہی مسلک ہے: (و شرط وجوب صوم رمضان) الإسلام و لو فیما مضی۔۔۔فلا یجب علیٰ کافر۔ (البنیان في فقہ الشافعي: ج۳ ص۴۶۷) اور مالکیہ اور احناف کا بھی یہی مسلک ہے کہ ایام کفر کی قضا تو لازم و ضروری نہیں۔ البتہ اسلام لانے کے بعد اب جو وقت اس پر گذرے گا اس میں روزہ رکھنا ضروری ہوگا۔ اور اگر کسی وجہ سے ان روزوں کو نہ رکھ سکا تو ان کی قضا لازم ہوگی۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:و یجب علی الکافر صوم ما یستقبل من الشھر بغیر خلاف۔ (الشرح الکبیر: ج۳ ص۱۵)

قبول اسلام والے دن کے روزے کی قضا

نومسلم نے جس دن اسلام قبول کیا ہے اس دن کے روزے کی قضا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں دو قول ہیں:

پہلا قول

پہلا قول یہ ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا لازم ہوگی۔ اس لئے کہ عبادت کا بعض حصہ جس وقت ادا کرتا وہ وقت اس نے پایا ہے۔ چنانچہ جس طرح نماز کے بعض وقت کو پانے سے نماز کی قضا لازم آتی ہے، اسی طرح روزہ کی بھی قضا لازم ہوگی۔ یہ قول ابواسحاقؒ کا ہے: أحدھا یجب؛ لأنھم أدرکوا بعض وقت العبادۃ، فلزمھم القضاء کما لو أدرکوا بعض وقت الصلاۃ۔ و ھذا قول إسحاق في الکافرإذا أسلم۔ (الشرح الکبیر: ج۳ ص۱۵)

دوسرا قول

دوسرا قول امام مالکؒ، ابو ثورؒ اور ابن المنذرؒوغیرہم کا ہے کہ اس دن کے روزہ کی قضا لازم نہیں ہوگی: و الثانیۃ لا یلزمھم و ھو قول مالک و أبي ثور و ابن المنذر في الکافر إذا أسلم، و الأول ظاھر المذھب لأنھم لم یدرکوا وقتاً یمکنھم التلبس بالعبادۃ فیہ أشبہ ما لو زال عذرھم بعد خروج الوقت۔ (الشرح الکبیر: ج۳ ص۱۵)

البتہ مالکیہ کے نزدیک قضا کرلینا مستحب ہے، جیسا کہ الفقہ الإسلامي و أدلتہ میں ہے: أما إن أسلم الکافر في أثناء النھار فیلزمہ عند الحنابلۃ إمساک بقیۃ الیوم و قضاؤہ لأنہ أدرک جزءاً من وقت العبادۃ فلزمتہ کما لو أدرک جزءاً من وقت الصلاۃ، و یستحب الکف عن الأکل عند الحنفیۃ و المالکیۃ و الشافعیۃ مراعاۃ لحرمۃ أو لحق الوقت بالتشبہ بالصائمین کما یستحب القضاء عند المالکیۃ، و لا یلزم عند الحنفیۃ و لا قضاء علیہ في الأصح عند الشافعیۃ لعدم التمکن من زمن یسع الأداء و لا یلزمہ إمساک بقیۃ النھار في الأصح؛ لأنہ أفطر لعذر فأشبہ المسافر و المریض۔ (الفقہ الإسلامي و أدلتہ: ج۳ ص۱۶۶۴)

اس سلسلے میں اصل وجہ اختلاف یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کب سے کرسکتے ہیں؟ جن فقہاء کے نزدیک صرف طلوع فجر سے پہلے نیت کرسکتے ہیں، ان کے یہاں اس دن کے روزہ کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ اور جن فقہاء کے یہاں اس وقت کے علاوہ بھی نیت کرنا درست ہے، ان کے نزدیک اسی وقت سے حکم جاری ہوگا۔ البتہ صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس دن اسلام قبول کیا ہے اس دن کی قضا لازم نہیں ہونی چاہیے۔ اس لئے کہ جس وقت اسلام قبول کررہا ہے اس وقت اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ روزہ پورا کرسکے۔

یہ مسئلہ بالکل اسی طرح ہے کہ وقت گذرنے کے بعد کسی کا عذر جاتا رہے۔ لیکن اگر ایسے وقت میں اسلام قبول کیا جس میں روزہ کی نیت کرسکتا تھا تو اس پر لازم ہے کہ اس دن کا روزہ رکھے اگر نہیں رکھے گا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔ نیت کا وقت احناف کے نزدیک طلوع فجر سے قبل ہے اس لئے اگر کسی نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس وقت کو پایا تو اس پر روزہ لازم ہوگا۔ اور نہیں رکھ سکا تو قضا لازم ہوگی۔ چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانی فرماتے ہیں: و لو أسلم الکافر قبل طلوع الفجر مقدار ما یمکنہ النیۃ فعلیہ صوم الغد و إلا فلا۔ (بدائع الصنائع: ج۲ ص۲۳۶) اگر کافر نے طلوع فجر سے اتنا پہلے اسلام قبول کیا جتنے وقت میں روزہ کی نیت کرنا ممکن ہے تو اس پر اس دن کا روزہ فرض ہوگاورنہ نہیں۔

اوپر ہم نے یہ بات ذکر کی کہ وجوب کے لئے نیت کا وقت ملنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ دن میں چاہے زوال سے قبل ہی وقت ملا تو اس پر اس دن کا روزہ مکمل کرنے کو لازم قرار نہیں دیں گے؛ اس لئے کہ روزہ ایسی عبادت ہے جس میں تجزی نہیں ہے، پس معلوم ہوا کہ جب کوئی حصہ واجب نہیں ہوا تو پورا روزہ بھی واجب نہیں ہوگا۔ چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانی فرماتے ہیں: و کذا إذا أسلم في یوم من رمضان قبل الزوال لا یلزمہ صوم ذلک الیوم حتی لا یلزمہ قضاؤہ۔ (بدائع الصنائع: ج۲ ص۲۳۳)

صحیح اور راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ نہ اتمام لازم ہونا چاہیے نہ قضا؛ کیونکہ جب پہلا وقت عبادت میں شمار نہ ہوا تو اس کو بعد سے ملاکر مکمل روزہ کو درست کیسے قرار دے سکتے ہیں۔

قبول اسلام والے دن امساک کا حکم

نو مسلم نے جس دن اسلام قبول کیا ہے اس وقت سے شام تک منافی صوم سے امساک ضروری ہے۔ نومسلم کو باقی دن بھی روزہ داروں سے مشابت کی غرض سے امساک یعنی کھانے پینے وغیرہ سے رکا رہنا ضروری ہے۔ حرمت روزہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر امساک کا حکم لگایا جائے گا۔ جیساکہ عاشوراء کے موقع پر آپﷺ اور صحابہ کا عمل ہمارے سامنے ہے۔ اسی وجہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے امساک کو مستحب لکھا ہے: و یستحب الکف عن الأکل عند الحنفیۃ و المالکیۃ و الشافعیۃ مراعاۃ لحرمۃ أو الحق الوقت بالتشبہ بالصائمین۔ (الفقہ الإسلامي و أدلتہ، وھبہ زحیلی: ج۱۰ ص۶۱۱)(جاری)

  • اگلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں:
  • پچھلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے