نو مسلموں کے احکام قسط ۱۱ | مسائل سے ناواقف نومسلم کی نماز| نو مسلم کو سورۂ فاتحہ یاد نہ ہو

نو مسلموں کے احکام، قسط:۱۱

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
مسائل سے ناواقف نومسلم کی نماز
تکبیر تحریمہ کا حکم
نو مسلم کو سورۂ فاتحہ یاد نہ ہو
خلاصۂ بحث
حالت کفر کا سجدۂ تلاوت واجب نہیں
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۱
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۱

 

مسائل سے ناواقف نو مسلم کی نماز

کوئی شخص جب اسلام قبول کرلے تو شریعت کے تمام احکام اس پر لازم ہوں گے۔ البتہ شریعت میں اس کے لئے اتنی رعایت رکھی گئی ہےکہ وہ کچھ وقت اسلامی احکام کا مکلف نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے۔ اور نماز کے ارکان سے اسے واقفیت نہیں ہے۔ اس لئے وہ معذور کے حکم میں گردانا جائے گا۔ البتہ اس پر لازم ہوگا کہ جتنی جلدی ہوسکے نماز کے ضروری مسائل سیکھ لے اور قرآن کریم کی آیات یاد کرلے۔ ذیل میں ہم ان مسائل کو تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جن میں نو مسلم کو گنجائش دی جاتی ہے:

تکبیر تحریمہ کا حکم

پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز کی ابتدا اللہ کے نام سے ہونا لازمی و ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: افتتاح الصلاۃ الطھور و تحریمھا التکبیر۔ (سنن ترمذی: حدیث۳)نماز کی کنجی پاکی ہے اور اس کا تحریمہ اللہ اکبر کہنا ہے۔

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک تحریمہ کے لئے صرف یہ دو لفظ ہیں’’اللہ اکبر‘‘۔ اگر ان دو الفاظ کے علاوہ کسی اور لفظ سے ابتدا کی تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ جبکہ احناف کے نزدیک ان دو الفاظ کے علاوہ جو الفاظ اس معنی میں مستعمل ہیں ان سے بھی نماز درست ہوجائے گی۔ایسا معذور شخص جو ’’اللہ اکبر‘‘ نہیں کہہ سکتا، اس کے لئے گنجائش ہے کہ جس زبان میں چاہے تکبیر کے مدلول کے مطابق الفاظ استعمال کرلے: إنما یجزیہ التکبیر بلسانہ ما لم یحسنہ بالعربیۃ، فإذا أحسنھا لم یجزہ التکبیر إلا بالعربیۃ۔(کتاب الأم: ج۱ ص۱۹۹)

البتہ صرف تکبیر تحریمہ کو یاد کرلینا چونکہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے؛ اس لئے نومسلم پر لازم ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس کو ذہن نشیں کرلے، تاکہ صحیح طریقہ سے نماز ادا کرسکے۔

نومسلم کو سورۂ فاتحہ یاد نہ ہو

ائمہ ثلاثہ کے نزدیک سورۂ فاتحہ کا ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک واجب ہے۔ چنانچہ اگر کوئی نو مسلم شخص عذر کی بنا پر یا جان بوجھ کر بھی سورۂ فاتحہ ترک کردیتا ہے تب بھی اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ترک واجب کیا تو سجدۂ سہو لازم آئے گا۔اس لئے کہ قرآن کریم میں ہے: فاقرؤا ما تیسّر من القرآن(سورۂ المزمل: آیۃ۲۰)قرآن کی جتنی مقدار آسانی سے پڑھ سکو اتنی پڑھ لو۔

جب تک سورۂ فاتحہ یا ایک ایسی آیت یاد نہ ہوجائے جس سے نماز درست ہوسکے، تب تک تسبیح و تحمید وغیرہ پر ہی اکتفا کرے گا۔ جب تک یاد کرنے پر قادر نہ ہوجائے اور ایک آیت نہ سیکھ لے، تب تک تسبیح وغیرہ پر اکتفا کرے۔ ہر مکلف پر قرآن کی آیت کا ذکر کرنا فرض عین ہے۔ اور سورۂ فاتحہ یاد کرنا جو آیت اس کے قائم مقام ہو سکیں ان کو یاد کرنا مسلم پر واجب ہے۔ اس لئے جب نو مسلم شخص سورۂ فاتحہ یاد کرلے یا کوئی آیت اسے یاد ہوجائے تب اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اب بھی نماز میں سورہ کی جگہ تسبیح پڑھے۔ بلکہ جہاں آیت و سورۂ فاتحہ پڑھنی ہے وہاں اب وہ فاتحہ ہی پڑھے گا، تسبیح نہیں؛ اس لئے کہ تسبیحات کی گنجائش عذر کی وجہ سے دی گئی تھی۔ اور جب عذر ختم ہوگیا تو وہ گنجائش بھی ختم ہوگئی: فإذا حفظ شیئاً من القرآن آیۃ أو فاتحۃ الکتاب و سورۃ لم یجز لہ الاکتفاء من التسبیح و أمثالہ و ھذا ظاھر۔ (إعلاء السنن: ۲۔۳ ص۲۴۴)

خلاصۂ بحث

نومسلم کو جب تک کلام اللہ کا کچھ حصہ یاد نہیں ہوجاتا ہے، تب تک نماز میں تکبیر تحریمہ کے اور رکوع کے درمیان خاموش کھڑا رہے گا۔ بہتر یہ ہے کہ سورت یاد نہ ہونے کی شکل میں تکبیر تحریمہ اور رکوع کے درمیان وقفہ کرے اور اس میں تحمید و تہلیل کرتا رہے۔ اگر عربی زبان کے علاوہ کسی زبان میں قرآن کی آیت پڑھ سکتا ہے تو احناف کے نزدیک نماز درست ہوجائے گی۔ اگر سورت یا چند آیات یاد آگئی ہوں تو پھر تسبیحات کو ترک کردے گا۔ اور وہی آیات پڑھے گا۔ اس لئے کہ خاموش رہنے کی یا ذکر کرنے کی یا احناف کے نزدیک دوسری زبان میں تلاوت کی گنجائش مجبوری کی وجہ سے تھی۔

احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی کو قرآن پڑھنے پر قدرت نہ ہو اور وہ کسی دوسری زبان میں سورت پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی: ثم الجواز کما یثبت بالقراءۃ بالعربیۃ، بالقراءۃ بالفارسیۃ عند أبي حنیفۃ، سواء کان یحسن العربیۃ و لا یحسن۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۲۹۷)

حالت کفر کا سجدۂ تلاوت واجب نہیں

حالت کفر میں سجدہ کی جو آیات سنی ہیں اس کے سجدے کرنا لازم نہیں۔ اس لئے کہ کفر کی حالت میں وہ نماز کا اہل نہیں تھا۔ اور سجدۂ تلاوت کے وجوب کے لئے نماز کا اہل ہونا ضروری ہے: و أما بیان من تجب علیہ فکلّ من کان أھلاً لوجوب الصلاۃ علیہ إما أداء أو قضاء، فھو من أھل وجوب السجدۃ علیہ و من لا فلا؛ لأن السجدۃ جزء من أجزاء الصلاۃ، فیشترط لوجوبھا أھلیۃ وجوب الصلاۃ من الإسلام۔۔۔حتیٰ لا تجب علی الکافر۔۔۔قرءوا أو سمعوا؛ لأن ھؤلاء لیسوا من أھل وجوب الصلاۃ علیھم۔ (بدائع الصنائع: ج۱ ص۴۳۹،۴۴۰)(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے