نو مسلموں کے احکام قسط ۱۰ |نچلی ذات کے نومسلم کی تدفین|اسلام قبول کیا لیکن کسی پر ظاہر نہ کیا

نو مسلموں کے احکام، قسط:۱۰

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
ارکان اسلام پر عمل نہ کرنے والے نو مسلم کی نماز جنازہ
نو مسلم کی کتابیہ بیوی حمل کے ساتھ فوت ہوجائے
کافر شوہر سے ہونے والے بچے کی نماز جنازہ کا حکم
اسلام قبول کیا لیکن کسی پر ظاہر نہ کیا
نچلی ذات کے نومسلم کی تدفین
 
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۰
نو مسلموں کے احکام قسط ۱۰
 

ارکان اسلام پر عمل نہ کرنے والے نو مسلم کی نماز جنازہ

   اگر کسی شخص نے اسلام قبول کیا اور اسے احکام شریعت معلوم بھی تھے، لیکن اس نے کبھی کوئی عمل موافق شریعت نہیں کیا، بلکہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی رہا۔ اور ان کے مخصوص مراسم سے بھی باز نہ آیا تب بھی اس کے مرنے کے بعد نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔ اس لئے کہ حکماً وہ مسلمان ہی ہے۔ اگرچہ اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے فسق کا حکم لگے گا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: صلوا علیٰ کل بر و فاجر۔ (ابو داؤد شریف، کتاب الجنائز) ہر نیک و بد پر نماز جنازہ پڑھو۔

  بہر حال جب تک حتمی طور پر یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ شخص اسلام سے مکر گیا ہے، اور کافر ہوگیا ہے، اور وہ برابر اپنے کو مسلمان ہی کہتا رہے، اس وقت تک اس کے ساتھ مسلمانوں والا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ اس لئے فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ تکفیر مسلم میں احتیاط لازم ہے۔ یعنی جہاں تک ہوسکے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں: و في الخلاصۃ و غیرھا: إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیرو وجہ واحد یمنعہ، فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر، تحسیناً للظن بالمسلم۔ (رد المحتار: ج۶ ص۳۵۸)

   خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں بہت ساری وجہیں ایسی ہوں جن سے کفر لازم ہوسکتا ہو، لیکن ایک صورت ایسی ہو جو تکفیر سے روکتی ہو تو مفتی کے لئے لازم ہے کہ اس صورت کی طرف مائل ہو جس سے اس کی تکفیر نہ ہوتی ہو۔

   معلوم ہوا کہ اگر کسی نو مسلم شخص کے بارے میں اشتباہ ہوجائے کہ وہ اسلام پر باقی تھا یا آبا و اجداد کے دین کی طرف لوٹ گیا تھا تب بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

نو مسلم کی کتابیہ بیوی حمل کے ساتھ فوت ہوجائے

   کسی کافر نے اسلام قبو ل کیا، اور اس کے نکاح میں کتابیہ تھی جس کو اس نو مسلم سے حمل بھی تھااور وہ عورت مرگئی تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ اس لئے کہ کفار کے لئے نماز جنازہ مشروع نہیں ہے۔ لیکن اس کو غسل اور کفن دیا جائےگا۔ البتہ دفن کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ چنانچہ علامہ کاسانی لکھتے ہیں: لا یصلیٰ علیھا بالإجماع؛ لأن الصلاۃ علی الکافرۃ غیر مشروعۃ، وما في بطنھا لا یستحق الصلاۃ علیہ۔ و لکنھا تغسل و تکفن۔ و اختلف الصحابۃ في الدین۔(بدائع الصنائع: ج۲ ص۳۲)

   دفن کے سلسلے میں بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ پیٹ میں موجود بچے کو ترجیح دیتے ہوئے اس کتابیہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس لئے کہ بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہے اس کو مستقل حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ اس عورت کے جسم کا ایک حصہ ہے۔

   تیسری صورت حضرت واثلہ بن الاسقعؒ نے بیان کی ہے کہ اس کی قبر بالکل علیٰحدہ بنائی جائے گی۔ علامہ علاء الدین کاسانی ؒ نے اسی قول کو محتاط کہا ہے۔

کافر شوہر سے ہونے والے بچے کی نماز جنازہ کا حکم

   کسی کافرہ نے اسلام قبول کیا، لیکن وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے، چونکہ کافر سے اس کا نکاح باقی نہیں رہااس لئے جو بچہ پیدا ہوا وہ ولد الزنا ہوا۔ لیکن اگر بچہ فوت ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس لئے کہ ماں اور باپ میں سے جو اسلام پر ہو، بچہ اس کے تابع ہوتا ہے: قولہ (الولد یتبع خیر الأبوین دیناً) بأن کانا کافرین فأسلم أو أسلمت ثم جاءت بولد قبل العرض علی الاٰخر و التفریق أو  بعدہ في مدۃ یثبت النسب في مثلھا أو کان بینھما ولد صغیر قبل إسلام أحدھما، فإنہ بإسلام أحدھما یصیر الولد مسلماً۔ (رد المحتار: ج۴ ص۳۷۰، باب نکاح الکافر)

البتہ ایسی نومسلمہ کو چاہیے کہ اگر شوہر اسلام قبول نہ کرے تو اس سے علیٰحدگی اختیار کرلے۔ اور عدت گذار کر جائز طریقے سے دوسرے مسلم مرد سے شادی کرلے۔ کیونکہ جب تک کافر شوہر کے ساتھ رہے گی زنا کار کہلائے گی۔

اسلام قبول کیا لیکن کسی پر ظاہر نہ کیا

   اگر کسی کافر نے خفیہ طور پر اسلام قبول کیا لیکن کسی پر اپنا اسلام ظاہر نہیں کیا، بلکہ خفیہ طور پر نماز، روزہ وغیرہ احکام پر عمل کرتا رہا اور اپنے والدین کے گھر پر ہی رہ کر کھاتا پیتا رہا۔ تو ایسا شخص مسلمان ہے۔ اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس لئے کہ اس کے اسلام میں کوئی شبہ نہیں : أما شروطھا، فمنھا أن یکون المیت مسلماً فتحرم الصلاۃ علی الکافر۔ (الفقہ علی المذاھب الأربعہ: ج۱ ص۴۸۳)

نچلی ذات کے نومسلم کی تدفین

   اسلام کا نظام مساوات بالکل نرالہ ہے۔ اسلام میں ہر آدمی برابر ہے۔ کسی کو بھی کوئی فوقیت رنگ و نسل اور قوم و و طن کی بنا پر نہیں ہے۔ بلکہ یہاں معیار تقویٰ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إنّ أکرمکم عند اللہ أتقاکم۔ (سوہ الحجرات:آیۃ ۲۰) بلاشبہ تم میں سب سے معزز سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔

إنما المؤمنون إخوۃ۔ (سورہ حجرات: آیت ۱۰)اسی طرح قرآن میں ایک جگہ ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔

   ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض کسی پیشہ کی وجہ سے کوئی کمتر نہیں ہوتا۔ اور اس کی بنیاد پر کسی سے نفرت کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اسلام لانے کے بعد تقویٰ و پاکیزگی میں دوسرے مسلمانوں سے بڑھ گیا ہو۔ اس لئے اس کے ساتھ اسلامی مساوات کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کی نماز جنازہ پڑھ کر اپنے قبرستان میں دفنانا بھی چاہیے۔ نیز اس کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو کل قیامت کے دن اس سلسلے میں مواخذہ ہوگا۔

اگر کافر اپنے نومسلم رشتہ دار کو اپنے قبرستان میں دفن کرنا چاہے

اگر نومسلم شخص کے والدین یا رشتہ دار اس بات کی تمنا اور آرزو کریں کہ اس کو اپنے قبرستان میں دفنائیں تو انہیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہاں اگر مسلمانوں اور ان کے قبرستان مخلوط ہیں اور کوئی دوسری جگہ میسر نہیں تو پھر ان کے قبرستان میں دفنانے میں کوئی حرج نہیں۔ نیز اگر وہاں ان کے قبرستان میں کوئی ایسی جگہ صاف ستھری ہو جہاں ان کی قبریں یا قبروں کے نشانات نہ ہوں یا جانب قبلہ کوئی قبر نہ ہو تو پھر وہاں اس کی نماز جنازہ بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ علامہ شامی لکھتے ہیں: و لا بأس بالصلاۃ فیھا إذا کان فیھا موضع أعد للصلاۃ و لیس فیہ قبر و لا نجاسۃ کما في الخانیۃ و لا قبلتہ إلی قبر۔ (شامی : ج۲ ص۴۱، قبل مطلب تکرہ الصلاۃفي الکنیسۃ)(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے