بچوں کے لئے عدل و انصاف کے موضوع پر تقریر| عدل و انصاف کی فضیلت و اہمیت |بچوں کے لئے تقاریر

بچوں کے لئے عدل و انصاف کے موضوع پر تقریر

بچوں کے لئے عدل و انصاف کے موضوع پر تقریر
بچوں کے لئے عدل و انصاف کے موضوع پر تقریر
 

عدل و انصاف

الحمدُ لِلّٰہِ الّذِيْ العادِل ، و الصلاۃُ و السلامُ علیٰ نبيِّ الکامِل، و علیٰ اٰلِہٖ و أصْحابِہِ الّذِیْنَ سَلَکُوا علیٰ سَبِیلِ العَدْلِ و الإحسان رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُم و رَضُوْا عَنْہ، أمّا بعد: قالَ اللّٰہُ تعالیٰ’’إنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالعَدْلِ و الإحسان‘‘ و قالَ اللّٰہُ تعالیٰ’’و لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ علیٰ أن لا تَعْدِلُوا، اِعْدِلُوا ھُوَ أقْرَبُ لِلتَّقْویٰ‘‘

جناب صدر اور محترم حاضرین!

ابھی ابھی میں نے آپ کے روبرو دو آیتیں تلاوت کی ہیں، ان کا ترجمہ یہ ہے: ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف اور احسان کرنےکا حکم دیتا ہے‘‘

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور کسی قوم کی عداوت تمہیں اس گناہ پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو، تم (ہر حال میں) انصاف کرو، یہی چیز تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘

محترم حاضرین!

واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا میں جتنا فساد پھیلا ہوا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حضرتِ انسان سے عدل کی صفت رخصت ہورہی ہے۔ جب انسان حق و باطل کی تمیز چھوڑ دے، اپنے ضمیر کی آواز پسِ پشت ڈالدے۔ ظلم و ناانصافی پر کمر باندھ لے۔ وہ یہ نہ سوچے کہ کیا کرنا ٹھیک ہےاور کیا غلط ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا شرّ و فساد کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ صفحۂ زمین پر انارکی، بدامنی، بے اطمینانی کا راج ہوتا ہے۔

دوستو!

 انسان کا حال کچھ عجیب سا ہے، اگر ظلم و ستم اور تشدد پر اتر آتا ہے تو اپنے ہی بھائی بندوں کو آرے سے چیر ڈالتا ہے۔ اور نرمی پر اتر آتاہے تو پانی کے جراثیم، زمین پر چلنے والے کیڑے مکوڑے، زہریلے سانپ، اور کھیتوں کو ویران کرنے والے جانوروں کی حفاظت کرنے کو عین مذہب سمجھنے لگتا ہے۔ حد یہ ہے کہ پانی کے ننھے ننھے جراثیم کے بچاؤ کے لئے پانی چھانتا ہے، ہوا میں اڑنے والے جراثیم کے لئے منھ پر کپڑا باندھتا ہے۔اگر دنیاوی خواہشات پوری کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے تو چاہتا ہے کہ سارے جہاں کی دولت اس کی ملکیت میں ہواور ترکِ خواہش کی طرف توجہ کرتا ہے تو دنیا سے دور پہاڑوں کے غاروں میں اپنا مسکن بنالیتا ہے۔

مگر اسلام اس طرز زندگی کا سخت مخالف ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ تم عدل اختیار کرو، بیچ بیچ کی راہ چلو۔ اس راہ کو چنو جو سیدھی ہو۔ اس بات کافیصلہ کرو جو حق ہو۔ اسی کام کے لئے جان کی بازی لگاؤ جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہو۔

   تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اس پر عمل کرکے دکھادیا۔ قاضیوں نے اسلامی قانون کے مطابق ایسے فیصلے کئے ہیں کہ انہوں نے بادشاہِ وقت، حکامِ زمانہ تک کی پرواہ نہ کی۔ دوست اور دشمن، کافر و مسلم، اپنےاور پرائے میں کوئی تمیز نہ کی۔

آج بھی ہم کامیابی اسی وقت پاسکتے ہیں جب ہم عدل کا دامن پکڑلیں۔ اس کے بغیر کامیاب ہونا اور پھر سے بامِ عروج پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو عدل کے راستے پر چلائے۔ آمین

 

و اٰخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین

 

(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے