نو مسلموں کے احکام، قسط:۹
از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری
اس قسط میں آپ پڑھیں گے:نومسلموں کی امامت کے احکامکیا نو مسلم امامت کرسکتا ہے؟نچلی ذات کے نومسلم کی امامتنماز جنازہ کے مسائلاگر کوئی مسلم کافروں کے محلہ میں جل کر مرجائے
نو مسلموں کی امامت کے احکام
کیا نو مسلم امامت کرسکتا ہے؟
نماز پڑھانے کے لئے فوقیت اس شخص کو دی جاتی ہے جو شرعی احکام سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو۔ پس اگر کسی نو مسلم کے اندر امامت کی شرطیں موجود ہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی قباحت نہیں ہے۔ چنانچہ رد المحتار میں ہے: و الأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصاً الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ و فساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاھرۃ، و حفظ قدر فرض، و قیل واجب و قیل سنۃ۔ (شامی: ج۲ ص۲۹۴، باب الإمامۃ) امامت کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے جو نماز کے احکام کو بخوبی جانتا ہو۔ اگر صرف نماز ہی کے احکام سے واقفیت ہے تب بھی کافی ہے۔ یعنی نماز کی صحت و فساد کے بارے میں جانتاہو اور ظاہری طور پر فواحش سے بھی بچتا ہو۔ اور اس کو اتنا کلام مجید یاد ہو جس پر فرض کی ادئیگی ہو سکے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بقدر وجوب یاد ہو جبکہ بعض نے کہا ہے بقدر سنت اس کو حفظ ہو۔
نچلی ذات کے نومسلم کی امامت
اسلام نے ذات پات کی بنا پر کسی کو کوئی فوقیت و فضیلت نہیں دی ہے، بلکہ سب انسانوں کا درجہ یکساں رکھا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت و فضیلت ہے، بلکہ بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے: قال رسول اللّٰه ﷺ یا أیھا الناس ألا إن ربکم واحد وإن أباکم واحد ألا لا فضل لعربي علیٰ عجمي و لا لعجمي علی عربي و لا لأحمر علی أسود و لا أسود علیٰ أحمر إلا بالتقویٰ۔ (رواہ احمد: ۲۲۳۹۱، و ھو في السلسۃ الصحیحۃ)
نیز قرآن کہتا ہے: إن أکرمکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ (الحجرات) اس لئے اگر کسی نو مسلم میں شرائط امامت موجود ہیں تو بلاکسی کراہت کے اس کے پیچھے نماز درست ہے۔ نو مسلم قبل اسلام کسی بھی فرقہ، جماعت یا ذات برادری سے تعلق رکھتا ہو، اسلام لانے کے بعد ایک عام مسلمان کی طرح ہے۔ اور ذات و برادری کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لہٰذا جو نو مسلم امامت کی اہلیت رکھتا ہو اس پر کسی شخص کا محض اس وجہ سے اعتراض کرنا اور اس کی مخالفت کرنا کہ وہ نو مسلم ہے، پہلے کافر تھا، سخت گناہ کی بات ہے۔ اور اسلامی احکام مساوات کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس لئے کہ جس طرح سے ایک مسلم امامت کرسکتا ہے اسی طرح یہ نو مسلم بھی امامت کا مستحق ہے۔ کیونکہ وہ کفر و شرک سے توبہ کرکے بالکل پاک و صاف ہوچکا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے: عن عبد اللّٰہ عن أبیہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (ابن ماجہ: ج۱ ص۳۱۳ ، باب الزہد) گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے گناہ ہی نہ کیا ہو۔
ایک دوسری حدیث میں ہے: أن الإسلام یھدم ما کان قبلہ۔ (مسلم شریف: ج۱ ص۷۶، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ)اسلام لے آنا پہلے کے گناہ کو ختم کردیتا ہے۔
نو مسلموں کی نماز جنازہ کے مسائل
غیر مسلم حضرات چونکہ ایک مخصوص طریقہ پر اپنے مشرکانہ تصور کے مطابق آخری رسومات ادا کرتے ہیں، جنہیں اسلام درست نہیں سمجھتا ہے، اس لئے کسی مسلسمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس میں شرکت کرے۔ البتہ اس صورت میں کوئی مسلمان اپنے کافر اعزہ کے کفن دفن میں حصہ لے سکتا ہے جبکہ کافر کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے مشرکین موجود نہ ہوں: حتی لا یجب غسل الکافر لأن الغسل وجب کرامۃ و تعظیماًللمیت، و الکافر لیس من أھل استحقاق الکرامۃ و التعظیم۔(بدائع الصنائع: ج۲ ص۲۹)
لیکن اس میں یہ خیا ل رکھا جائے کہ مسلمان اپنے قریبی رشتہ دار، والدین وغیرہ کو جو کفر پر مرے ہوں، ان کی تجہیز و تکفین مسنون طریقے سے کرنے سے احتراز کرے۔ بلکہ صرف اتنا کرے کہ دھلے ہوئے کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں دبا دے۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں: ( و یغسل المسلم و یکفن و یدفن قریبہ) الکافر الأصلي عند الاحتیاج من غیر مراعاۃ السنۃ) فیغسلہ غسل الثوب النجس و یلفہ في خرقۃ و یلقیہ في حفرۃ۔(شامی: ج۳ ص۱۳۴، باب صلاۃ الجنازۃ)
اس حکم کا استدلال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ جب آپ کے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو حضور ؐ کو اطلاع دی گئی کہ آپ کےگمراہ چچاکا انتقال ہوگیا ہے۔ اس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عن علي قال: قلت للنبي ﷺ إن عمک الشیخ الضال قد مات، قال اذھب فوار أباک ثم لأتحدثن شیئاً حتی نأتیني، فذھبت فواریتہ و جئتہ فأمرني فاغتسلت و دعا لي۔ (سنن ابی داؤد: ف۲ ص۴۵۸، کتاب الجنائز: باب الرجل یموت لہ قرابۃ مشرک)جاؤ اس کو غسل دو اور کفن دو اور اس کو چھپا دو اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام اس وقت مت کرنا جب تک کہ میرے پاس نہ آجاؤ۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر واقعہ کی خبر دی تو آپ ﷺ نے میرے لئے اتنی دعائیں کیں جو مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
اگر کوئی مسلم کافروں کے محلہ میں جل کر مرجائے
اگر کوئی مسلم اپنے گھر میں کافر رشتہ داروں کے ساتھ رہتا ہے۔ اب اگر اس گھر میں آگ لگ گئی اور سب کے سب جل کر مرگئے اور کسی طرح سے یہ شناخت بھی نہ ہوسکے کہ کافر ہے یا نومسلم، تو اس صورت میں تمام کو غسل دیا جائے گا۔ اور خاص کر مسلمان کی نیت سےنماز و دعا کا اہتمام کیا جائے گا۔ چنانچہ علامہ شربیني فرماتے ہیں: و الصلاۃ فإن شاء صلی جمیع بقصد المسلمین و ھو الأفضل و المنصوص أو علیٰ واحد فواحد ناویاً الصلاۃ علیہ إن کان مسلماً۔ (مغنی المحتاج: ج۱ ص۲۹) افضل اور منصوص طریقہ یہی ہے کہ مسلمان کی نیت سے تمام پر نماز پڑھی جائے گی، یا ہر ایک پر الگ الگ نماز پڑھی جائے گی۔ ہربار اس طرح نیت کرتے ہوئے کہ اگر یہ مسلم ہو تو اس کی نماز پڑھتا ہوں۔(جاری)