بچوں کے لئے عید الاضحیٰ کے موضوع پر تقریر
عید الاضحی
الحمد لِلّٰہِ الذي أعطانا العیدَیْنِ الکبیرَین، و الصلاۃُ و السلامُ علیٰ محمدٍ صاحبِ الکونَین، و علیٰ اٰلِہ و أصحابِہ الکِرام، و علیٰ أولیائِہ العِظام، أما بعد! قالَ اللّٰہُ تعالیٰ في القراٰنِ المجید و الفرقانِ الحمید ، بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، إنّا أعطَیناکَ الکَوْثر، فَصَلِّ لِرَبِّکَ و انحَرْ۔ صَدَقَ اللّٰہُ العظیم
محترم سامعین!
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اس مقدس دن کی یادگار ہے جس دن ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے کی حلقوم پر خود اس کا شفیق باپ چھری چلا رہا تھا، اس وقت ستاروں کی روشنی ماند پڑگئی تھی، زمین کا ذرہ ذرہ، چمنستانِ عالم کے اشجار کا پتہ پتہ،اور وسیع و عریض کائنات کا چپہ چپہ حیران تھا، پریشان تھا، اور زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ واہ رے انسان! واہ رے مسجودِ ملائک! واہ رے افضل المخلوقات! تو کیوں نہ افضل المخلوقات کہلائے! تو کیوں نہ جنت کا مستحق ٹھہرے! فرشتے کیوں نہ تمہارے سامنے سجدہ ریز ہوں! شیطان رجیم کی آنکھیں نم تھیں اور خون کے آنسو رورہی تھیں، نہ تو وہ باپ کو صراطِ مستقیم سے ہٹا سکا، اور نہ ہی بیٹے کو بہکا سکا، دونوں اللہ کے محبوب بندے اپنے پیدا کرنے والے کے اشارے کے آگے سرنِگوں تھے، آپ جانتے ہیں کہ وہ باپ بیٹے کون تھے؟
باپ تھے ابو الانبیاء و الرسل ابراہیم خلیل اللہ اور بیٹے تھے اسماعیل ذبیح اللہ ، اللہ تعالیٰ ان پر ہزاروں سلام بھیجے۔
ان باپ بیٹوں نے ایک ایسی مثال قائم کی کہ خدا نے اسے رہتی دنیا تک یادگار بنا دیا، اور اس دن کو انسانیت کے عَلَم برداروں کے لئے عید کا دن بنا دیا اور حکم دے دیا کہ جس انسان کے پاس اتنا مال ہوکہ وہ تندرست و توانا جانور کی قربانی بارگاہِ الٰہی میں پیش کر سکے تو وہ ضرور پیش کرے ورنہ گنہگار ہوگا۔
تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ جب سے انسان کو اپنے انسان اور بندہ ہونے کا شعور ہوا تب ہی سے وہ اپنے معبود کے سامنے قربانی دینے لگا، قدیم ترین مذاہب میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔
قرآن شریف جو اس دنیا میں خدا کی آخری کتاب ہے، اس کی دو آیتیں آپ لوگوں کے سامنے پڑھی گئیں ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے: اے محمد(ﷺ)! ہم نے آپ کو کوثر دیا ہے پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔
قربانی کی فضلیت احادیث میں بھی آئی ہے۔ آنحضرت ﷺ مدینہ میں دس سال تشریف فرما تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ہر سال قربانی کرتے تھے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن کوئی انسانی عمل قربانی سے زیادہ پیارا نہیں ہے، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک قبولیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے، پس چاہیے کہ قربانی خوش دلی سے کرو۔
قربانی در اصل ایک عظیم جذبہ کا نام ہے جس کے ماتحت انسان اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، قربانی کے جانور کا خون گوشت یہ سب چیزیں خدا کو نہیں پہنچتیں اور نہ خدا کو اس کی کوئی حاجت ہے، وہ تو اپنے بندوں کو آزمانا چاہتا ہے کہ دیکھیں یہ بندے اپنے پالتو قیمتی جانور ہماری راہ میں قربان کرکے اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں یا نہیں کہ کبھی اگر انہیں اپنی جان، اپنی اولاد کی قربانی بھی دینی پڑے تو گریز نہ کریں گے۔
محترم دوستو! قربانی کا یہی عظیم جذبہ اگر مسلمانوں میں پیدا ہوجائے تو یقین رکھئے کہ دَم کے دَم میں ان کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اس جذبہ کا مالک بنائے۔
عید قرباں کا دن ہر سال اس جذبہ کو یاد دلانے کے لئے آتا ہے تاکہ ہم وہ سبق بھول نہ جائیں جو حضرت خلیل اللہ نے دیا تھا اور ہر سال اس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
و اٰخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
(ماخوذ از ’’آپ تقریر کیسے کریں؟‘‘ جلد اول)