نو مسلموں کے احکام قسط ۸ | ہندوستان میں فرضیت نماز سے لاعلمی کا حکم

نومسلموں کے احکام، قسط:۸

از قلم: محمد اسحاق لون کشمیری

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
ہندوستان میں فرضیت نماز سے لاعلمی کا حکم
نومسلم فرضیت کا علم ہونے سے پہلے فوت ہوگیا
نومسلم پر نماز کس وقت سے فرض ہوگی؟
نومسلم کے ذمہ بہت سی نمازیں قضا ہوں
نو مسلموں کے احکام قسط ۸
نو مسلموں کے احکام قسط ۸

 

ہندوستان میں فرضیت نماز سے لاعلمی کا حکم

  دار الاسلام اور دار الحرب کا حکم معلوم ہونے کے بعد سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستا جیسے ممالک دار الاسلام کے حکم میں ہوں گے اور نو مسلم کے لئے قبول اسلام کے بعد سے نماز فرض ہونے کا حکم ہوگا؛ اس لئے کہ دار الاسلام کی طرح یہاں بھی ہر ایک شخص علم شریعت بخوبی سیکھ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کی دقت و پریشانی بھی لاحق نہ ہوگی۔

نومسلم فرضیت کا علم ہونے سے پہلے فوت ہوگیا

  اگر کسی شخص نے دار الحرب میں اسلام قبول کیا اور روزہ، نماز کی فرضیت کا علم اسے نہیں ہوا، پھر دار الاسلام آگیا یا فوت ہوگیا، ایسی صورت میں اس پر قضا لازم قرار نہیں دی جائے گی۔ اور نہ ہی موت کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر نماز، روزہ کے سلسلے میں عتاب ہوگا، چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: لم یکن علیہ الصوم و الصلاۃ قیاساً و استحساناً و لا یعاقب علیہ إذا مات۔ (فتاویٰ ھندیہ: ج۱ ص۱۲۴)

نومسلم پر نماز کس وقت سے فرض ہوگی؟

  نومسلم اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد سے شریعت اسلامی کا مکلف ہوگا۔ اور جس وقت اس نے اسلام قبول کیا ہے اسی وقت سے فرضیت نماز کا حکم اس پر لگایا جائے گا۔ البتہ فقہاء کرام کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کتنے وقت کو پانے کے بعد اس پر نماز فرض ہوگی؟ مثلاً کسی شخص نے عصر کے آخر وقت میں اسلام قبول کیا تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ چنانچہ امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک رکعت کے بقدر اس کو وقت ملا یعنی جس میں ایک رکعت سجدوں سمیت ادا کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں وہ شخص نماز کو پورا اور صحیح صحیح پانے والا کہلائے گا۔ پس جب اس کیفیت کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہوگئی تو گویا اتنا وقت ملنے سے اس پر نماز کی ادائیگی لازم آئے گی۔ اور ادا نہ کرنے کی صورت میں قضا کرنی ہوگی، چناچہ صحیحین کی روایت ہے: عن أبي ھریرۃ أن رسول اللہ ﷺ قال من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقد أدرک الصلاۃ۔ (بخاری شریف: ج۱ ص۱۸۲ حدیث۵۷۲، مواقیت الصلاۃ)

فالأصحّ: أنہ إن وقع) في الوقت (رکعۃ) أو أکثر کما فھم بالأول (فالجمیع أداء) لخبر الصحیحین: من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقدف أدرک الصلاۃ۔ (مغنی المحتاج: ج۱ ص۴۲۱)

یعنی ایک رکعت کو پالیا تو پوری نماز کو پانے والا کہلائے گا۔ ورنہ وہ نماز کو پانے والا نہیں ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ نومسلم اگر اتنے وقت پہلے اسلام لایا جس میں ایک رکعت ادا کرسکتا ہے تو پھر اس پر یہ نماز لازم ہوگی۔ احناف اور حنابلہ کی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر اتنا وقت مل جائے جس میں تکبیر تحریمہ کہہ سکتا ہے تو نماز کے وقت کو پانے والا سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: قال رسول اللہ ﷺ من أدرک رکعۃ من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک الصبح۔۔۔من أدرک سجدۃ من صلاۃ الصبح قبل أن تطلع الشمس فلیتمّ صلاتہ۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۱ ص۳۹۶)

عن أبي ھریرۃ أن رسول اللہ ﷺ قال: من أدرک من الصبح رکعۃ قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک الصبح، و من أدرک رکعۃ من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر۔ (بخاری شریف: ج۱ ص۸۲ حدیث۵۱۷، مواقیت الصلاۃ)

جس شخص نے عصر کی نماز کا ایک سجدہ بھی سورج غروب ہونے سے پہلے پالیا یا صبح کی نماز کا ایک سجدہ سورج نکلنے سے پہلے پالیا تو گویا اس نے نماز پالی۔

  ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس طرح سے مسافر اگر مقیم کی اقتدا کرے تو مقیم ہی کی طرح پوری نماز پڑھے گا۔ چاہے اخیر میں ہی شریک ہواہو۔ اسی طرح نماز کے تھوڑے حصہ کو پانے والا جماعت کو پانے والا کہلاتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت صریح عبارت نقل کی گئی ہے: الوجوب یتعلق عندنا باٰخر الوقت بمقدار التحریمۃ، حتیٰ أن الکافر إذا أسلم و الصبي إذا بلغ و المجنون إذا أفاق و الحائض إذا طھرت إن بقي مقدار التحریمۃ یجب علیہ الصلاۃ عندنا کذا في المضمرات۔ (فتاویٰ ھندیہ: ج۱ ص۵۱)

  ہمارے نزدیک آخر وقت تکبیر تحریمہ کے بقدر وقت ملنے سے بھی وجوب متعلق ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کافر اسلام قبول کرے یا بچہ بالغ ہوجائے اور تحریمہ کے بقدر ابھی نماز کا وقت باقی ہے تو ان پر نماز واجب ہوجائے گی۔ السنن الکبریٰ کے محقق عبد القادر عطا نے علامہ ترکمانی کے حوالہ سے امام شافعی کا یہی قول نقل کیا ہے: قال ابن الترکماني: قولہ في الترجمۃ ’’فیدرک من الوقت شیئاً یقتضي أنہ لو أدرک تکبیرۃ یکون مدرکاً۔ قال الشافعي في الکتاب العصري لو أفاق المغمیٰ علیہ و قد بقي من النھار قدر تکبیرۃ أعاد الظھر و العصر، و کذا الحائض و الکافر۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: ج۱ ص۵۶۸، تحقیق: عبد القادر عطا، بیروت)

  ابن الترکمانی کہتے ہیں کہ ترجمۃ الباب میں یہ کہنا کہ اگر نماز کا تھوڑا وقت بھی مل جائے تو یہ اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اگر کسی نے بقدر تکبیر تحریمہ بھی وقت نماز کو پالیا تو وہ پوری نماز کو پانے والا ہوجائے گا۔ امام شافعی نے الکتاب العصری میں لکھا ہے کہ اگر بیہوش شخص کو دن کے وقت میں افاقہ ہوگیا، اور تکبیر تحریمہ کے بقدر وقت بھی اس نے پالیا تو وہ اپنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو لوٹائے گا۔ اسی طرح کافر اور حائضہ کا بھی یہی حکم ہے۔

  اس عبارت سے معلوم ہورہا ہے کہ جو قول احناف و حنابلہ کا ہے وہی قول امام شافعی کا بھی ہے۔

نومسلم کے ذمہ بہت سی نمازیں قضا ہوں

  بعض صورتوں میں اگر نو مسلم فرضیت نماز کا علم ہونے کے باوجود اپنی نماز وقت پر ادا نہیں کرسکتا اور اس کے ذمہ بہت ساری نمازیں قضا ہوگئیں تو اب کیا کرے؟ اس صورت میں شوافع اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ اس وقت تک قضا نمازیں پڑھے گا جب تک کہ اس کو بری الذمہ ہونے کا یقین نہ ہوجائے: و قد نصّ أحمد علیٰ معنیٰ ھذا، فإن لم یعلم قدر ما علیہ فإن یعید حتی یتیقن براءۃ ذمتہ، قال أحمد في روایۃ صالح في الرجل یضیع الصلاۃ: یعید حتی لا یشک أنہ قد جاء بما قد ضیع۔ (المغنی لابن قدامہ: ج۱ ص۶۴۶)

  مالکیہ و حنفیہ کے نزدیک بری الذمہ ہونے کا غالب گمان بھی کافی ہے، یقین ہونا ضروری نہیں: یکفي أن یغلب علیٰ ظنہ براءۃ ذمتہ، و لا یلزم عند القضاء تعیین الزمن بل یکفي تعیین المنوي کالظھر أو العصر مثلاً، و خالف الحنفیۃ۔۔۔قالوا لا بد من تعیین الزمن، فینوي أول ظھر علیہ أدرک وقتہ و لم یصلہ، و ھکذا أو ینوي اٰخر ظھر علیہ کذٰلک۔ (الفقہ علیٰ المذاھب الأربعہ: ج۱ ص۴۶۰)

  البتہ احناف کا اس میں اختلاف ہے کہ زمانے کی بھی تعیین کرنا اس پر لازم ہوگا۔ مثلاً اس طرح نیت کرے گا کہ میری پہلی یا آخری ظہر کی نماز جس کا وقت میں نے پایا ہے لیکن اس وقت نہیں پڑھی تو اب اس کی قضا کرتا ہوں: قالوا لا بد من تعیین الزمن، فینوي أول ظھر علیہ أدرک وقتہ و لم یصلہ و ھکذا، أو ینوي اٰخر ظھر علیہ کذلک۔ (الفقہ علی المذاھب الأربعہ: ج۱ ص۴۶۰) (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے