معاشیات قسط 12، اسلامی معاشی نظام میں پابندیاں، جائداد کی ملکیت

معاشیات قسط: 12

از قلم: محمد اطہر

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:

اسلامی معاشی نظام میں پابندیاں

(۱)خدائی پابندیاں
(۲)ریاستی پابندیاں

اسلامی نظام میں جائداد کی ملکیت

(۱)نجی ملکیت
(۲)عوامی ملکیت
(۳)رضاکارانہ اجتماعی ملکیت(اوقاف)

اسلامی معاشی نظام میں پابندیاں

اسلامی معاشی نظام میں پابندیاں

اسلامی معاشی نظام میں دو طرح کی پابندیاں ہیں۔ (۱)خدائی پابندیاں۔ (۲)ریاستی پابندیاں۔

(۱) خدائی پابندیاں

سب سے پہلے تو اسلام نے معاشی سرگرمیوں پر حلال و حرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں عائد کی ہیں ، جو ہر زمانہ اور ہر جگہ نافذ العمل ہیں۔ مثلاً سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’أحَلَّ اللہُ البَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا‘‘ (البقرۃ: ۲۷۵) احتکار یعنی خاص افراد یا طبقات میں دولت کا محصور ہوجانا۔ اکتناز (جمع دولت) قمار، سٹہ اور دوسری تمام بیوع باطلہ کو کلی طور پر ناجائز قرار دیاگیا۔ کیونکہ یہ چیزیں عموماً اجارہ داریوں کا سبب بنتی ہیں۔ ان چیزوں کی وجہ سے عوام الناس کے مصالح اور ضرورتیں پامال ہوتی ہیں۔ اور معیشت ناہمواری و عدم توازن کا شکار ہوتی ہے۔ اسی طرح تمام محرمات کی پیداوار اور خرید و فروخت کو بھی ناجائز قرار دیا گیا۔

(۲) ریاستی پابندیاں

خدائی پابندیاں تو ابدی نوعیت کی ہوتی ہیں، لیکن ریاستی پابندیاں وقتی ہوتی ہیں، اور کسی عمومی مصلحت کے تحت ہوتی ہیں۔ ایسی پابندیاں کسی چیز میں بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے کوئی چیز فی نفسہ جائز ہو لیکن اس کی اجازت سے معاشرے میں کسی طرح کی کوئی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو حکومت اسلامیہ ایسی چیزوں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ مسلمانوں پر ایسی پابندیوں کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے؛ اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یا أیھا الذین آمنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولي الأمر منکم‘‘ (النساء: ۵۹) ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول اور اپنے میں بااختیار لوگوں کی اطاعت کرو‘‘ اس آیت میں ’’أولي الأمر‘‘ (با اختیار افراد) کی اطاعت کو اللہ اور رسول کی اطاعت سے الگ کرکے ذکر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں میں قرآن و سنت نے کوئی معین حکم نہیں دیا، ان میں اولی الامر کے احکام واجب التعمیل ہیں۔(۱)

یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ حکومت کو مباحات پر پابندی عائد کرنے کا یہ اختیار غیر محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں۔ ان میں سے دو باتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں: ۱۔ حکومت کا وہی حکم واجب التعمیل ہے جو قرآن وسنت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہو۔۲۔ حکومت کو اس قسم کی پابندی عائد کرنے کا اختیار صرف اس وقت ملتا ہے جب کوئی اجتماعی مصلحت اس کی داعی ہو۔ چنانچہ ایک مشہور فقہی قاعدے میں اس بات کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے: ’’تصرف الامام بالرعیۃ منوط بالمصلحۃ‘‘ (عوام پر حکومت کے اختیارات مصلحت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔) لہٰذا کوئی حکومت کسی اجتماعی مصلحت کے بغیر کوئی پابندی عائد کرے تو یہ پابندی جائز نہیں۔ قاضی کی عدالت سے اسے منسوخ کرایا جاسکتا ہے۔(۲)

اسی کے ضمن میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی قانون کے اعتبار سے حکومت معیشت کی نگرانی کرتی ہے۔ اور جب کوئی اجتماعی خرابی پیش آجائے یا کسی طبقہ کے کچلے جانے کا اندیشہ ہو، تو دخل اندازی بھی کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت مناسب اقدام کرکے اسے روکے گی۔

اسلامی نظام میں جائداد کی ملکیت

سرمایہ دارانہ نظام کی ممتاز خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں افراد کو نجی ملکیت کا حق ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشی نظام میں بھی افراد کو نجی ملکیت کا حق ہوتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ وسائل کے مالکوں پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد کی جاتی ہیں۔

اسلامی معاشی نظام میں جائداد کی ملکیت کے تین بڑے اور معروف طریقے ہیں: ۱۔ نجی ملکیت، ۲۔ عوامی ملکیت، ۳۔رضاکارانہ اجتماعی ملکیت (اوقاف)

(۱) نجی ملکیت

نجی ملکیت کے سلسلے میں فقہاء کرام کی رائے یہ ہے کہ اسلام نہ صرف نجی ملکیت کا حق دیتا ہے بلکہ اسے تسلیم کرتا ہے اور اس کا احترام کرتا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کے برعکس اسلامی نظام میں جائداد کی نجی ملکیت کا حق ایک مطلق حق نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے نجی جائداد افراد کے پاس اللہ کی ایک امانت ہے۔ کیونکہ آخری تجزیہ کے طور پر وہی ان تمام چیزوں کا مالک ہے، جو اس نے پیدا کی ہیں۔ لہٰذا افراد کا فرض ہے کہ وہ اس امانت کا استعمال اس طور پر کریں جو معاشرے میں شر کے بجائے خیر کا باعث ہو۔

سرمایہ دارانہ معیشت کی طرح افراد کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی جائداد کا کوئی غلط استعمال کرسکیں یا اسے برباد کرسکیں۔ در حقیقت اسلام جائداد اور دیگر معاشی وسائل کے بہترین استعمال کی نہ صرف تعلیم دیتا ہے، بلکہ ضروری احکام کے ذریعے ناگزیر بھی بنا دیتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی شخص اپنی جائداد کے صحیح انتظام کرنے کا اہل نہیں ہے (فقہی اصطلاح میں سفیہ ہے) تو ریاست کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اس کی جائداد کے مناسب انتظام و انصرام کے لئے کسی متولی کا تقرر کرے۔ اسی طرح اہل ثروت کو اپنی دولت ضائع کرنے یا ناجائز استعمال کا حق نہیں ہے۔ اسلام اہل ثروت پر بعض اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے تاکہ وہ اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں۔ کیونکہ روز آخرت اہل ثروت کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے اپنی دولت کا استعمال کس طرح کیا۔

(۲) عوامی ملکیت

دوسرا طریقہ ہے عوامی ملکیت۔ اسلامی معاشی نظام میں عوامی ملکیت جائز ہے۔ لیکن نجی ملکیت کی طرح عوامی ملکیت بھی مطلق نہیں ہے، بلکہ اسے بھی دنیا میں عوام کے سامنے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا پڑے گا۔ معیشت میں ریاست کی دخل اندازی کا فیصلہ مصلحت عامہ کی بنیاد پر ہوتاہے۔ یہ ایک فقہی قاعدہ ہے: ’’تصرف الامام با لرعیۃ منوط بالمصلحۃ‘‘

(۳) رضاکارانہ اجتماعی ملکیت (اوقاف)

تیسرا طریقہ ہے رضاکارانہ اجتماعی ملکیت (اوقاف)۔ یہ اسلامی معاشی نظام کا ایک مخصوص و ممتاز ادارہ ہے، جو رضاکارانہ اجتماعی ملکیت کی ایک شکل ہے۔ اس ادارے کے ذریعے اہل ثروت مسلمان اپنی جائداد یا اس کا کوئی حصہ عام معاشرتی فلاح و بہبود کے لئے یا کسی ایسے مقصد کے لئے جو اپنے آپ میں اخلاقی یا مذہبی نقطۂ نظر سے قابل قدر ہو، محفوظ کرسکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں اس کا مکمل نظام موجود ہے۔ اوقاف کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ حکومت کی دخل اندازی کے بغیر رضاکارانہ اجتماعی اقدار کے ذریعے فلاحی سرگرمیوں کے منظم کرنے کا ایک ادارہ ہے۔(۳) (قسط ۱۳ پڑھیں)

اس قسط کو اخیر تک پڑھنے کا شکریہ! کیا معاشیات سے آپ کو دلچسپی ہے؟ بطور خاص اسلامی معاشیات سے؟ اسلامی معاشیات کا مستقبل کیا ہوگا؟ آپ کیا سوچتے ہیں؟کمنٹ کرکے ضرور بتائیں۔ اور اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کریں۔


(۱) اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ص:۴۲
(۲) اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ص:۴۳
(۳) علم معاشیات اور اسلامی معاشیات، ص:۱۰۱

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے