معاشیات قسط 11، اسلامی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل

معاشیات قسط: 11

از قلم: محمد اطہر

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:

اسلامی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
اسلام میں طلب و رسد کا قانون
اسلامی نظام میں ذاتی منافع کا محرک

اسلامی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل

اسلامی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل

سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کو کس طرح حل کیا جاتا ہے، ہم جان چکے۔ اب ہم مطالعہ کریں گے کہ اسلامی نظام میں ان بنیادی مسائل کو کس طرح حل کیا جاتا ہے۔ اور اسلام نے کیا نظریہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ مالیات و معاشیات سے متعلق اسلامی احکامات و ہدایات کے مجموعی مطالعے سے ہم یہ مستنبط کر سکتے ہیں کہ مذکورہ چاروں مسائل کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔

اسلامی نظام میں طلب و رسد کا قانون

اسلام کے معاشی احکام و تعلیمات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے بازار کی قوتوں یعنی طلب و رسد کے قوانین کو تسلیم کیا ہے۔ اور وہ معیشت کے مسائل کے حل کے لئے ان کے استعمال کا فی الجملہ حامی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: ’’اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ- نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ۔‘‘ (زخرف:۳۲) ’’ہم نے ان کے درمیان معیشت کو تقسیم کیا ہے، اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجات میں فوقیت دی ہے؛ تاکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کام لے سکے۔‘‘

ظاہر ہے ایک دوسرے سے کام اس طرح لیا جائے گا کہ کام لینے والا کام کی طلب اور کام کرنے والا کام کی رسد ہے۔ اس طلب و رسد کے باہمی کشمکش اور باہمی امتزاج سے ایک متوازن معیشت وجود میں آتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جب دیہاتی اپنی زرعی پیداوار شہر میں فروخت کرنے کے لئے لاتے تو بعض شہری لوگ ان سے کہتے کہ تم اپنا مال خود لے جاکر شہر میں مت بیچو، بلکہ یہ سامان مجھے دے دو۔ میں مناسب وقت پر اس کو فروخت کروں گا۔ تاکہ اس کی قیمت زیادہ ملے۔ آنحضرت ﷺ نے شہریوں کو ایسا کرنے سے روکا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ جملہ ارشاد فرمایا ’’دعوا الناس یرزق اللہ بعضھم عن بعض‘‘ (مسلم شریف:۱۵۲۲) لوگوں کو آزاد چھوڑدو تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائے۔

جس طرح آنحضرت ﷺ نے بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان تیسرے شخص کی مداخلت کو اس لئے مسترد فرمادیا، تاکہ بازار میں طلب و رسد کا صحیح توازن قائم رہے۔ ظاہر ہے کہ دیہاتی جب براہ راست بازار میں کوئی چیز فروخت کرے گا تو اپنا مناسب نفع رکھ کر ہی فروخت کرے گا۔ لیکن اسے چونکہ جلدی واپس جانا ہے اس لئے اس کے پاس ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نہیں۔ اور خود اس کے بازار میں پہنچنے سے طلب و رسد کا ایسا امتزاج ہوگا جو صحیح قیمت متعین کرنے میں مدد دے گا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی تیسرا آدمی ان دونوں کے درمیان آجائے اور مال کی ذخیرہ اندوزی کرکے اس کی مصنوعی قلت پیدا کرے تو وہ طلب و رسد کے قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کرے گا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے طلب و رسد کے قدرتی نظام کو تسلیم فرمایا، اور اس کے باقی رکھنے کے لئے ہدایات دیں۔

اسی طرح جب آپ ﷺ سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتیں سرکاری طور پر متعین فرمادیں، تو اس موقع پر بھی حضور ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے: ’’إن اللہ ھو المسعر القابض الباسط الرزاق۔‘‘ (أبوداؤد: ۳۴۵۱) ’’بیشک اللہ تعالیٰ ہی قیمت متعین کرنے والا ہے اور وہی رازق ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو قیمت مقرر کرنے والا قرار دینے کا واضح مطلب اس حدیث کے سیاق میں یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلب و رسد کے فطری اصول مقرر فرمائے ہیں جن سے قیمتیں فطری طور سے متعین ہوتی ہیں۔ اور اس فطری نظام کو چھوڑ کر مصنوعی طور سے قیمتوں کا تعین پسندیدہ نہیں ہے۔

قرآن و سنت کے ان ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے طلب و رسد کے قوانین کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح ذاتی منافع کے محرک سے بھی فی الجملہ کام لیا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس محرک کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا۔ البتہ اسلام نے ذاتی منافع کے محرک کو باقی رکھتے ہوئے اور طلب و رسد کے قوانین کو تسلیم کرتے ہوئے تجارتی و معاشی سرگرمیوں پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کردیں کہ ان پر عمل کی صورت میں ذاتی منافع کا محرک ایسے غلط رخ پر نہیں چل سکتا جو معیشت کو غیر متوازن کرے یا اس سے دوسرے اخلاقی یا اجتماعی خرابیاں پیدا ہوں۔(۱)

اسلامی نظام میں ذاتی منافع کا محرک

اسلامی نظام میں دو منافع ساتھ ساتھ چلتے ہیں، (۱)دنیوی منافع۔ (۲)اخروی منافع۔ مسلمان اپنے پاس موجود وسائل سے جو منافع حاصل کرتے ہیں وہ منافع دنیوی بھی ہوتے ہیں اور اخروی بھی۔ دیگر نظاموں میں صرف دنیاوی منافع سے بحث کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام میں دونوں منافع سے بحث کی جاتی ہے، بلکہ اسلام میں اخروی منافع کو دنیوی منافع پر ترجیح حاصل ہے۔جگہ جگہ قرآن و حدیث میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و عطیات کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن شریف میں ایک جگہ ہے: ’’من ذا الذي یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضاعفہ لہ أضعافاً کثیرۃ‘‘ (البقرۃ: آیۃ ۲۴۵) اگرچہ ایک مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مال میں جائز تصرف کرکے دنیاوی اعتبار سے اس میں اضافہ کرے، لیکن جو شخص آخرت کا خیال کرکے اس کو سنوارنے کے لئے مال خرچ کرتا ہے یا کوئی تصرف کرتا ہے، تو اسلام ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اسلام نے ذاتی منافع کے محرک کو فی الجملہ تسلیم کیا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی طرح بالکل آزاد نہیں چھوڑا کہ ہر شخص جس میں نفع دیکھے اسی میں لگ جائے اور جس طرح چاہے نفع کمائے۔ بلکہ شریعت اسلامیہ نے بعض اشیاء کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دیا، جیسے شراب، خنزیر وغیرہ۔ اسی طرح نفع کمانے کے لئے بعض طریقوں کو بھی حرام قراردیا، جیسے سودی کاروبار کے ذریعے نفع کمانا۔ اسی طرح جوا وغیرہ کو بھی حرام قراردیا۔ ان پابندیوں کی وجہ یہ ہے تاکہ نظام معیشت متوازن طریقے سے چلتا رہے۔ اور معاشرے میں کسی طرح کی اخلاقی یا معاشی بگاڑ نہ پیدا ہو۔ اس طرح کی پابندیاں دو ہیں: (۱)خدائی پابندیاں۔ (۲)ریاستی پابندیاں۔ (قسط ۱۲ پڑھیں)

اس قسط کو اخیر تک پڑھنے کا شکریہ! آپ کی نظر میں اگر یہ مضمون کسی کے کام آسکتا ہے تو ان کے ساتھ شیئر کریں۔ اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ مذکورہ دونوں طرح کی پابندیوں کا مطالعہ کریں گے۔


(۱)اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ص:۳۸

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے