معاشیات قسط: 10
از قلم: محمد اطہر
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
اسلامی نظام معیشت کا تعارف
مال کے متعلق اسلام کا تصور
اسلامی نظام معیشت کے مرتب شکل میں نہ ہونے کی وجہ
اسلامی نظام معیشت کی نشأۃ ثانیہ کی کوشش
اسلامی اقتصادی نظام کی جانب توجہ
اسلامی نظام معیشت کا تعارف
سب سے پہلے اسلامی نظام معیشت کے سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام بھی ایک نظام معیشت پیش کرتا ہے، یا اسلامی نظام معیشت بھی کوئی نظام ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ قرآن و حدیث میں آج کی معاشیات کی طرح منظم و مرتب اور تفصیلی قواعد معاشیات ہوں، بلکہ مراد یہ ہے کہ اسلام ایک دین ہے اس کے احکامات و ہدایات زندگی سے لیکر موت تک کے ہر حالات و واقعات کے سلسلے میں ہیں۔ انہی میں سے معاشیات سے متعلق احکامات بھی ہیں۔ چنانچہ اسلام میں اس سلسلے میں بھی بنیادی احکام و ہدایات موجود ہیں۔ بعض مالی معاملات کو اسلام میں ناجائز قرار دیاگیا اور باقی کو مباح رکھا گیا۔ قرآن و سنت کوئی معاشیات کی منظم و مرتب کتاب نہیں ہے جس میں فنی اصطلاحی اسلوب میں معاشیات پر بحث کی گئی ہو۔ جیسا کہ معاشیات کی کتابوں میں معاشیات پر بحث ہوتی ہے۔
مال کے متعلق اسلام کا تصور
دیگر نظامہائے معیشت میں انسان کو ہی مال کا اصل مالک سمجھا جاتا ہے؛ اس لئے مال کمانے اور تصرف کرنے میں اسے بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ جیسا چاہتا ہے مال کماتا ہے اور جیسا چاہتا ہے اسے خرچ کرتا ہے۔ حلال و حرام کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے۔
جبکہ مال کے سلسلے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اس کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ بندہ صرف اس کا نائب بن کر اس میں تصرف کرتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَ أَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُسْتَخْلَفِیْنَ فِيْه۔‘‘(الحدید:آیة۷) اس مال و دولت میں سے خرچ کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔
اسلام کا کہنا یہ ہے کہ بندہ مال میں اللہ تعالیٰ کا جانشین ہے۔ لہٰذا اصل کا جیسا حکم ہوگا جانشین اسی طرح اس میں تصرف کرے گا۔ اسلامی شریعت، اجتماعی، اقتصادی اور مادی معاملات کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کی زیادہ پروا کرتا ہے۔ یقیناً معاملات کے دنیاوی اور مادی پہلو قرآن کریم نے نظر انداز نہیں کئے، لیکن ان سے قرآن کریم کا تعلق جزوی ہے۔ قرآن کریم کی اصل دلچسپی معاملات کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں سے ہے۔ خاص طور سے ان پہلوؤں پر اسلامی شریعت زیادہ زور دیتی ہے، جہاں انسانوں سے کسی قسم کی غلطی، بھول چوک کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
شریعت نے ان باتوں کا خاص خیال رکھا ہے کہ معاشرہ اور سماج میں ان معاملات کے ذریعے کسی پر ظلم نہ ہو، اور امن و امان خراب نہ ہو۔ معاشرے میں کسی طرح کی کوئی برائی نہ پھیلے۔ جہاں انسانوں سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہوں یا آج غلطیاں ہورہی ہوں یا آئندہ غلطی ہونے کا امکان ہو، ان معاملات کے سلسلے میں قرآن کریم نے خاص ہدایتیں دی ہیں اور انسانوں کی رہنمائی کا پورا بند و بست کیا ہے۔(۱)
اسلامی نظام معیشت کے مرتب شکل میں نہ ہونے کی وجہ
چونکہ مالیات و معاشیات کے سلسلے میں لوگوں کو بنیادی قواعد و احکام دیئے گئے تھے اور انہیں مال کمانے اور اس میں تصرف کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا تھا۔ لوگ مال کمانے اور اس میں تصرف کرنے میں ان احکامات کو ملحوظ رکھتے اور حکومت اسلامیہ ان کی نگرانی کرتی، اور جہاں اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی عمل غلط ہوتا دیکھتی تو اس پر روک لگاتی اور اسے ختم کرنے کے لئے مناسب تدبیریں اختیار کرتی۔ انہی سب وجوہات کی بنا پر اسلام ایک ترقی یافتہ دین ہونے کے باوجود اور اس کے باوجود کہ اس نے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے بہت سارے احکامات و ہدایات دیئے، اور حکومت اسلامیہ نے انہیں نافذ کیا اور علماء و فقہاء نے ان احکامات و ہدایات سے بہت سارے مسائل مستنبط کیے، جس سے عمل میں وسعت پیدا ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بہت سارے علوم وجود میں آئے اور ان کے ماہرین بھی پیدا ہوئے۔ ان سب کے باوجود آج کی معاشیات کی طرح فقہاء نے معاشیات کو منضبط نہیں کیا اس لئے کہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
اسلامی نظام معیشت کی نشأۃ ثانیہ کی کوشش
آج جو لوگ اسلامی معاشیات کو منظم و مرتب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ در اصل اس بنا پر کر رہے ہیں کہ سرمایہ داریت کے غلبہ کی وجہ سے اس کے ساتھ ساتھ بہت ساری اخلاقی اور معاشی خرابیاں اور برائیاں معاشرے میں پیدا ہوگئی ہیں۔ سود جو اسلام میں حرام ہے، مسلمانوں کا اس سے بچنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لئے کہ بینکوں کا سارا نظام سود پر چلتا ہے۔ اور بینک معاشرے کی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لئے اس زمانے کے علماء نے ان برائیوں سے معاشرے کو بچانے کے لئے اور ان کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے ایک بہتر متبادل کے طور پر اسلامی نظام معیشت کو پیش کیا اور اسے آج کے معاشی نظام کی طرح مرتب کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی اقتصادی نظام کی جانب توجہ
اسی سلسلے میں ڈاکٹر اوصاف احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’تاریخی اعتبار سے اسلامی اقتصادی نظام کی جانب توجہ، غیر سودی بینکاری نظام کے توسط سے مبذول ہوئی۔ موجودہ زمانے کی معیشت میں بینکاری کی اہمیت اور معاشی زندگی کی ترقی میں اس کے کردار سے خاص و عام سبھی واقف ہیں۔ یہ حقیقت بھی عام طور پر معروف ہے کہ جدید بینکاری نظام سود کی بنیاد پر قائم ہے، جبکہ اسلام سود یا ربا کو حرام قرار دیتا ہے۔ اس لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ اسلامی نظام کے تحت جدید بینکاری نظام کس طرح عمل پذیر ہوگا؟
اس سوال کا جواب دینے کی کوششوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اسلامی بینکاری کا نظریہ وجود میں آیا، بلکہ اس سے متعلق دوسرے اہم مسائل کی جانب بھی توجہ مبذول ہوئی۔ مثلاً تخلیق قرض (Credit Creation) مرکزی بینکاری، مالی پالیسی کے اغراض و مقاصد وغیرہ۔ پھر مسلم ماہرین کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ مالی پالیسی (Monetary Policy)کسی خلا میں قائم نہیں ہوتی، اس کا تعلق مالیاتی پالیسی (Fiscal Policy)، ملک کی عام معاشی پالیسی، معیشت میں حکومت کے کردار اور معاشی نظام کے اغراض و مقاصد سے بھی ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشیاتی نقطۂ نظر سے ان تمام موضوعات پر خاصا تحقیقی کام ہوچکا ہے۔‘‘(٢)