معاشیات قسط 9، مخلوط معیشت کا تعارف اور اس کے بنیادی اصول

معاشیات قسط 9

از قلم: محمد اطہر

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:

مخلوط معیشت کا تعارف

مخلوط معیشت کے بنیادی اصول

(۱)حق ملکیت کا محدود ہونا
(۲)نجی اور عوامی شعبوں کا امتزاج
(۳)ریاست کے فلاحی وظائف
(۴)آزاد کاروبار پر پابندیاں اور اجارہ داری پر کنٹرول
(۵)جمہوری منصوبہ بندی

مخلوط معیشت کا تعارف

مخلوط معیشت کا تعارف

حکومت کی طرف سے معیشت کی منصوبہ بندی کا تصور اصلاً تو اشتراکیت نے پیش کیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ سرمایہ دار ملکوں نے بھی جزوی طور پر منصوبہ بندی اختیار کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار ممالک رفتہ رفتہ اپنے اصول پر مکمل طور پر قائم نہ رہ سکے کہ حکومت معیشت میں بالکل مداخلت نہ کرے، بلکہ مختلف اجتماعی مقاصد کے تحت سرمایہ دار حکومتوں کو بھی تجارت و معیشت میں کچھ نہ کچھ مداخلت کرنی پڑی۔

یہاں تک کہ مخلوط معیشت کے نام سے ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بنیادی طور پر معیشت کو بازار کی قوتوں کے تحت ہی چلایا جائے گا، لیکن ضرورت کے تحت تجارت و صنعت کے بعض شعبے سرکاری تحویل میں ہوسکتے ہیں۔ جیسے بعض سرمایہ دار ملکوں میں ریلوے، بجلی، فضائی سروس وغیرہ سرکاری تحویل میں ہوتی ہیں۔ اور جو تجارتیں نجی طور پر چلائی جارہی ہیں، حکومت ان کو بھی کچھ قواعد و ضوابط کا پابند بنا دیتی ہے۔

پہلی قسم کی تجارتوں کو سرکاری شعبہ (Public Sector) اور دوسری قسم کو نجی شعبہ (Privet Sector) کہا جاتا ہے۔ اب اس مخلوط معیشت میں حکومت کی فی الجملہ مداخلت ہوتی ہے؛ اس لئے جزوی طور پر اسے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ صرف جزوی منصوبہ بندیاں ہیں، جبکہ اشتراکیت کی منصوبہ بندی کلی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ یعنی اس میں ہر معاشی فیصلہ سرکاری منصوبہ بندی کے تابع ہوتا ہے۔

ایک معاشی نظام کے طور پر مخلوط معیشت، سرمایہ دارانہ اور اشتراکی معیشت کے انتہا پسندانہ راستوں کے مقابلے میں درمیانہ راہ ہے۔ اس میں دونوں کی خوبیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظری طور پر ایک مخلوط معیشت کی تعریف کرنا مشکل ہے؛ اس لئے کہ دونوں کی خصوصیات و خوبیاں کس تناسب سے ملائی گئی ہیں، اس کا فیصلہ کرنے کا کوئی معروضی معیار مقرر نہیں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام کی خصوصیات غالب ہوں، اور اس کی بہ نسبت اشتراکی نظام کی خصوصیات کم ہوں یا اس کے برعکس ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس معیشت کو مخلوط معیشت ہی کہا جائے گا۔ لہٰذا کسی معیشت کو مخلوط معیشت کہہ دینے سے یہ واضح نہیں ہوگا کہ وہ معیشت کیسے کام کرتی ہے۔ جب تک کہ ان بنیادی خصوصیات کا ذکر نہ ہو جن پر وہ معیشت قائم ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ معیشتیں تغیر پذیر اور متحرک ہوتی ہیں، ان میں ارتقائی عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔(۱)

حکومتیں وقتاً فوقتاً اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اس نظام میں تبدیلیاں لاتی رہتی ہیں۔ کسی رائج معیشت کو جاننے کا بہتر معیار، نصاب میں شامل اس وقت کی درسی کتابیں ہیں؛ اس لئے کہ نصابی کتابوں کے ذریعے حکومت کسی قانون یا نظام کو نافذ کرنے یا نافذ شدہ کو برقرار رکھنے کے لئے نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے زمین ہموار کرتی ہے، تاکہ قانون آسانی سے نافذ ہوسکے اور اس کا قیام دیرپا ہو۔

ہم اگر امریکہ اور روس کی معیشتوں کا مطالعہ کریں گے تو پائیں گے کہ وہاں ابتدا میں معیشت کے قوانین کچھ الگ تھے، اور ابھی اس میں بہت ساری تبدیلیاں آگئی ہیں۔ اس لئے مقالہ کے شروع میں ہی لکھا گیا تھا کہ ہم سرمایہ دارنہ نظام اور اشتراکی نظام کا ایک مجرد تصور ذہن میں رکھ کر ان نظاموں کا مطالعہ کریں گے۔ بہر حال مندرجہ بالا تعارف کے بعد ہم ذیل میں مخلوط معیشت کی صرف ان خصوصیات کا مطالعہ کریں گے جو ان ممالک میں عام طور پر پائی جاتی ہیں جنہوں نے اس طرز معیشت کو اپنا رکھا ہے۔ ہندوستان میں بھی مخلوط معیشت ہی رائج ہے۔ ۱۹۴۸؁ ء کی صنعتی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ہندوستان کو بھی مخلوط معیشت کا درجہ دیا گیا ہے۔(۲)

مخلوط معیشت کے بنیادی اصول

(۱) حق ملکیت کا محدود ہونا

مخلوط معیشت میں سرمایہ دارانہ معیشت کی طرح جائیداد کی نجی ملکیت کا حق ہوتا ہے۔ افراد کو اس بات کا حق ہے کہ وہ ذرائع پیداوار کے مالک بنیں، اور اپنے وسائل کو کام میں لاکر مزید دولت کمائیں۔ لیکن یہ حق مخلوط معیشت میں محدود ہوتا ہے۔ حکومت اس بات کا حق محفوظ رکھتی ہے کہ عوامی مفاد کی خاطر وہ نجی ملکیت کو قومی ملکیت میں لے لے۔ بعض ممالک میں، خاص طور سے ان ممالک میں جہاں زراعت پر آبادی کا انحصار زیادہ ہے، ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ لوگ ایک مقررہ مقدار سے زیادہ زرعی زمینوں کو اپنی ملکیت میں نہیں رکھ سکتے۔

(۲) نجی اور عوامی شعبوں کا امتزاج

اس نظام میں نجی اور عوامی شعبوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ نجی شعبوں میں اشیاء کی پیداوار اور تقسیم کی بنیاد منافع پر رکھی جاتی ہے۔ جبکہ عوامی شعبوں میں اشیاء کی پیداوار اور تقسیم کی بنیاد عوام کے مصالح پر رکھی جاتی ہے۔ عوامی شعبے میں پیداواری اکائیاں نجی ملکیت میں نہ ہوکر عوامی ملکیت میں ہوتی ہیں۔ حکومت، ان شعبوں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں دیتی ہے۔ اس نظام کا فلسفہ یہ ہے کہ حکومت کی ذمہ داریاں صرف دفاعی امور، زرعی انتظام اور شہری سہولتوں کی فراہمی تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ حکومت ایسے تمام اداروں اور صنعتوں کو اپنی تحویل میں رکھے گی، جن کا رکھنا عوامی یا قومی نگاہ سے ضروری ہو، یا جن سے سماجی فلاح کا فروغ ہو۔ حکومت ایسی صنعتوں کو بھی اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہے، جو نجی ملکیت میں تو جاسکتی ہیں، لیکن افراد کے پاس اتنے وسائل نہ ہوں کہ انہیں اپنی ملکیت میں رکھ سکیں، اور وہ صنعتیں سماج کے لئے نفع بخش ہوں۔

عوامی شعبوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں حکومت کی مداخلت میں اضافہ ہوگا۔ اس نظام میں حکومت اپنے آپ کو صرف امن و امان قائم رکھنے، انصاف دلانے یا ملک کا دفاع کرنے تک ہی محدود نہیں رکھتی، بلکہ یہ ایک قدم آگے بڑھ کر پیداواری سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہے۔ عام طور پر عوامی شعبوں میں ایسی صنعتیں ہوتی ہیں جو ملک کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ نجی شعبے میں جو کمپنیاں ہوتی ہیں ان کا منافع ان کمپنیوں کو جاتا ہے۔ لیکن عوامی شعبے میں جو کمپنیاں ہوتی ہیں ان کا منافع حکومت کو ملتا ہے اور وہ اس منافع کو ملک اور عوام کے مصالح کے لئے استعمال کرتی ہے۔

(۳) ریاست کے فلاحی وظائف

مخلوط معیشت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ریاست بہت سے فلاحی وظائف انجام دیتی ہے۔ بہت سی ایسی ضروریات ہیں جن کی تکمیل قیمت کے ذریعے کی جا سکتی ہے، لیکن عوام میں سے بعض کے پاس اتنا سرمایہ یا دولت نہیں ہوتی ہے کہ ان ضروریات کو پوری کرسکیں، ایسی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے حکومت ان افراد کی مدد کرتی ہے۔

مثلاً تعلیم ایک ضرورت ہے۔ اس سے معاشرہ ترقی کرتا ہے اور بہتری کی جانب بڑھتا ہے۔ لیکن معاشرے میں بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جن کے پاس اس بنیادی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے وسائل نہ ہوں تو حکومت ایسے ضرورت مند افراد کے لئے اسکول، مدارس، کالج، یونیورسٹی اور اسی طرح دیگر تعلیمی ادارے کھولتی ہے۔ اور ان کے لئے تعلیمی وظائف جاری کرتی ہے؛ تاکہ ایسے افراد تعلیم جیسی ضرورت پوری کرسکیں۔ اسی طرح طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہاسپیٹل وغیرہ اور دیگر ضرورت کی چیزیں حکومت ان کے لئے مہیا کرتی ہے۔

خیال رہے کہ معاشیات کے نقطۂ نظر سے کوئی معاشی شی یا خدمت مفت نہیں ہوسکتی۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ اس کی قیمت کوئی اور ادا کرتا ہے۔ اس مثال میں طبی سہولیات اور تعلیم وغیرہ کی قیمت حکومت ادا کرتی ہے۔ اسی طرح حکومت ایسے افراد کی دیکھ بھال کرتی ہے جو معاشی طور پر خود کفیل نہ ہوں۔

مثلاً چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کے لئے مخصوص مراکز قائم کرنا، معذور افراد کی مدد کرنا، غریب طالب علموں کو تعلیمی وظائف دینا، ضعیفوں کو بڑھاپے کی پنشن دینا، بے کار لوگوں کو بونس دینا، ایسے افراد کے لئے رہائشی مکانات تعمیر کرنا جن کے پاس اتنے وسائل نہ ہوں کہ وہ مکانات تعمیر کرسکیں۔ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے طرح طرح کی اسکیمیں لاتی ہیں۔ اور ضرورت مند افراد ان اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

(۴) آزاد کاروبار پر پابندیاں اور اجارہ داری پر کنٹرول

مخلوط معیشت میں عام طور پر کاروبار کی آزادی دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے۔ تاکہ نجی کاروبار سماجی مقاصد کو بھی پورا کرسکیں۔ حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ بازار سے مسابقت کا خاتمہ ہوکر اجارہ داریوں کا ظہور نہ ہوجائے۔ جہاں کہیں اجارہ داریاں ظاہر ہوتی ہیں، تو حکومت ایسے قانون بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ اجارہ دار اپنی پوزیشن کا غلط فائدہ نہ اٹھا پائیں۔

(۵) جمہوری منصوبہ بندی

مخلوط معیشت کی منصوبہ بندی، اشتراکی منصوبہ بندی سے قدرے مختلف ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ’’جمہوری منصوبہ بندی‘‘۔ یہ مخلوط معیشت کا لازمی حصہ نہیں ہے، جیسا کہ اشتراکی معیشت میں ہے۔ اشتراکی ممالک کی منصوبہ بندی میں جبر کا عنصر غالب رہتا ہے۔ جبکہ مخلوط معیشت میں منصوبہ بندی جمہوری انداز کی ہوتی ہے۔ اس منصوبہ بندی کو بس ایک مشیرانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ (قسط ۱۰ پڑھیں)


(۱)علم معاشیات اور اسلامی معاشیات، ص: ۸۰
(۲)’’معاشیات ‘‘ از مرزا فرید علی بیگ، ص:۸۳

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے