حقوق والدین پر تقریر، اطیب الکلام، اردو تقریر

حقوق والدین

ماخوذ از اطیب الکلام

الحمد للہ رب العالمین و العاقبة للمتقين و الصلوة و السلام علی النبی الکریم، أما بعد: فأعوذ بالله من الشيطٰن الرجيم. بسم الله الرحمٰن الرحيم، و قضىٰ ربّك ألا تعبدوا إلّا إياه و بالوالدين إحساناً، إما يبلغنّ عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أفٍ و لا تنهرهما و قل لهما قولاً كريماً. و قال عليه الصلوة و السلام هما جنتك و نارك. أو كما قال عليه السلام.

بڑا بانصیب ہے جس نے پایا ماں باپ کا سایا

برتاؤ کیا حسن سلوک کا اور جنت میں اپنا گھر بنایا

پھیرا جس نے اطاعت والدین سے رخ سرورؔ

ہر جستجو میں میں نے اس کو ناکام ہی پایا

معزز بزرگان دین!

اگرچہ اس وقت میرا بولنا مناسب نہ تھا لیکن آپ حضرات کی محبت اور بڑوں کے حکم نے مجھے یہاں لاکر کھڑا کردیا اس لیے میں چند منٹ قرآن و سنت کی روشنی میں آپ سے باتیں کروں گا۔ دعا کیجیے اللہ تعالی مجھکو ٹھیک ٹھیک کہنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوستو!

محبوب کبریاء نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ’’من لم یشکر الناس لم يشكر الله‘‘ ترجمہ: جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کیا۔ اس لیے میں سب سے پہلے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی محنتوں مشقتوں اور نیک مشوروں نے مجھے یہاں تک پہنچایا، خواہ وہ لوگ والدین کی شکل میں ہوں یا وہ لوگ اساتذۂ کرام اور بزرگان دین کی شکل میں رونما ہوئے ہوں، خواہ وہ لوگ منتظمین جلسہ کی شکل میں یہاں موجود ہوں، میں سب کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔

حضرات گرامی!

اس وقت معاشرہ جن برائیوں اور خرابیوں میں مبتلا ہے، ہر شخص ان کے مذموم اور پراگندہ اثرات سے دو چار ہے، بزرگوں کے حالات پڑھکر اور ان کی خوبیوں کو یاد کرکے آج لوگ خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔

مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی یہ بے راہ روی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کے لانے میں معاشرے کا اپنا ہاتھ بھی ہے، اگر آج کا مسلمان اپنی اولاد کو اس تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرتا جس سے ہمارے بزرگوں نے اپنی اولاد کو آراستہ کیا تھا تو یقیناً ہمارے معاشرے میں وہ بیماریاں آج جڑ نہ پکڑتیں اور اولاد بھی اپنے والد کے گریبان پر ہاتھ نہ ڈالتی اور معصوم ماں کو ظلم کا نشانہ نہ بناتی، آج بھی ہماری تمام تر بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان مریضوں کو قرآن و سنت کے دار الشفاء کی طرف لایا جائے۔

امت مسلمہ کے علم بردارو!

آپ حضرات کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی گئی ہے۔

اس میں اللہ تعالی نے معاشرے کے نوجوان فرزندوں کی ایک بیماری کا علاج بتایا ہے اور ایسا کامیاب نسخہ بیان کیا ہے کہ اگر انسان اس کو اپنا لے تو دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔ وہ نسخہ یہ ہے ’’ألّا تعبدوا إلا إياه و بـالـوالـدين إحسانا‘‘ ترجمہ: (لوگو!) اللہ ہی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اور آگے فر مایا: ’’إمّا يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أفٍ و لا تنهرهما و قل لهما قولاً كريماً۔ ترجمه: اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا اور نہ ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ بات چیت کرنا۔ اور آگے والی آیت میں بھی والدین کی خدمت اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

فرزندان توحید!

امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اللہ کی عبادت کے ساتھ فوراً والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، اکثر مقامات پر اولاً اللہ کی توحید کا بیان ہے دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

پھر خود امام رازی جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ والدین کے بہت سے معاملات کو جو کہ اولاد کے ساتھ ہوتے ہیں اللہ کے ان معاملات کے ساتھ مشابہت ہے جو اللہ کے اپنے بندوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

اول: یہ کہ اللہ تعالی بندوں کے وجود میں مؤثر حقیقی ہے اور والدین مؤثر ظاہری ہیں۔

دوم: یہ کہ اللہ تعالی جو انعام و احسان اپنے بندوں پر کرتا ہے اس کا عوض نہیں چاہتا ہے تقریباً یہی حال والد ین کا بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ جو حسن سلوک کرتے ہیں ان میں بے غرض ہوتے ہیں۔

سوم: یہ کہ پروردگار اپنے بندوں پر احسان و کرم کرنے سے نہیں رکتا؛ اگرچہ بندہ بڑے سے بڑا گناہ کر ڈالے اس سے نعمتوں کو منقطع نہیں کیا جاتا، یہی حال والد ین کا بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر احسان کرنے سے نہیں رکتے؛ اگرچہ اولاد والدین کے ساتھ بدسلوکی ہی سے پیش کیوں نہ آئے۔

چہارم: یہ کہ رب کریم اپنے بندوں کی اطاعت و عبادت کو خوب پھولنے پھلنے کا موقع دیتا ہے اور ان کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور اعمال فانیہ کو اعمال باقیہ بنا دیتا ہے اور قلیل کو کثیر بنا دیتا ہے، جیساکہ حق تعالی خود فرماتے ہیں: ’’مثـل الـذيـن ينفقون أموالهم في سبيل الله كمثل حبة أنبتت سبع سنابل في كل سـنبـلة مـأة حبة۔‘‘

ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتے ہیں اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔

اسی طرح والدین بھی اولاد کے مال میں نفع بخش تصرف کرتے ہیں۔

حاضر ین کرام!

میرے دل پر شدید تقاضا ہے اس لیے کہہ دیتا ہوں اور آپ سے گذارش ہے کہ اس کو دل کی تختی پر لکھ لینا یہ ایک آزمودہ اور اٹل حقیقت ہے۔ میں نے بھی اس کے خلاف ہوتے نہیں دیکھا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی حلیم و بردبار ہے جلدی پکڑ نہیں کرتا، بہت سارے گناہوں کو تو معاف کر دیتا ہے، اور بہت سارے گناہوں کی سزا عالم آخرت کے لیے موقوف کر دیتا ہے؛ لیکن والدین کی نافرمانی ایسا گناہ ہے جس کی سزا دنیا میں بھی دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی، میں نے کسی کونہیں دیکھا کہ اس نے ماں باپ کو ستایا ہو اور وہ دنیا سے آرام کے ساتھ رخصت ہو گیا ہو، کرب و اضطراب، قلق و بےچینی، فاقہ و بدحالی غرضیکہ ہر طرح کے مصائب جھیل کر ہی وہ دنیا سے جاتا ہے۔

ذرا سوچیے! یہ کیا اندھیرا ہے اور کس قدر بےوفائی ہے کہ جب ہم ضیعف و ناتواں تھے اور ہمارے والد ین طاقتور اور توانا تھے اس وقت انہوں نے ہم پر خرچ کرنے میں دریغ نہیں کیا، اب جب کہ صورت حال برعکس ہوگئی، والدین اپنی جان کھپاتے کھپاتے ناتواں ہو چکے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوگئے ہیں تو اولاد کے لیے کتنی سنگدلی، احسان فراموشی اور بےوفائی کی بات ہوگی کہ اولاد اپنے ان مخلص والدین پر مال خرچ کرنے میں تأمل سے کام لیں۔

دور نبوت کا عجیب واقعہ!

لوگو، آؤ! نبی کا ایک فرمان اور سنتے جاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دور ہے قابل غور ہے، ایک بیٹا اپنے باپ کی خدمت میں آتا ہے، کہتا ہے ابا جان یہ کچھ گندم ہیں، یہ کچھ اجناس ہیں، یہ کچھ چیزیں ہیں، محفوظ رکھو میں تجارت کے لیے جا رہا ہوں یہ میری امانت رکھو، دو سال تک میں آجاؤں گا آپ سے امانت لے لوں گا، اس کے جانے کے بعد باپ بیمار ہوگیا، آمدنی ختم ہوگئی، کچھ پریشانی آگئی، بیٹے کا مال استعمال کرنا شروع کر دیا دو سال بھی گذر گئے، مال بھی ختم ہو گیا، بیٹا بھی واپس آ گیا، آتے ہی بیٹے نے باپ سے کہا میرا مال دو، باپ نے جواب دیا کہ بیٹا! اب تک تو میں نے تیری پرورش کی اب میں بیمار ہو گیا، کمائی کرنے کے قابل نہیں رہا، کچھ حالات ایسے ہوئے میں نے تیرے مال کو استعمال کرلیا بیٹا باپ سے جھگڑ پڑا، بگڑ گیا کہ تو نے میرے مال کو ضائع کیا، میرا مال ادا کرو، باپ نے کہا جلدی نہ کرو، نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلّم سے فیصلہ کرالو اب بیٹا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں گیا اور باپ نے دیکھا کہ بیٹا دربار نبوت میں جارہا ہے۔

آقا مسجد میں ہیں،

چاند ستاروں میں ہیں،

محمد پیاروں میں ہیں،

تابعداروں میں ہیں،

جان نثاروں میں ہیں،

وفاداروں میں ہیں،

محبوب حب داروں میں ہیں،

نبی اپنے پیاروں میں ہیں،

(سبحان اللہ) بیٹا آیا، بات مختصر کر رہا ہوں، اس کو خطابت کے انداز میں لے جارہا ہوں، آقا نے معلوم کیا بیٹا کیا بات ہے پریشان کیوں ہو؟ لڑکے نے جواب دیا حضرت میں نے ابا کو کچھ سامان دیا تھا وہ اس نے خرچ کر دیا، اب میں ابا سے مانگتا ہوں تو ابا کے پاس کچھ نہیں رہا کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھو جو مصطفی فیصلہ کریں مجھے منظور ہے، حدیث میں آتا ہے کہ بیٹا مصطفی کے پاس گیا باپ خدا کے پاس گیا باپ نے مسجد میں سجدہ کرکے کہا کہ اے رزاق! اے خالق! یہ زندگی دی تھی کہ بیٹے کا محتاج بنا دیا یا اللہ خزانہ تیرے قبضہ میں ہے مولیٰ کوئی ایسا فیصلہ کرانا کہ میری دنیا بھی بن جائے اور آخرت بھی بن جائے۔

اللہ کا حکم لیکر جرئیل آگئے!

حضرت جبرئیل اترتے ہیں، کہتے ہیں کہ محبوب خیال کرنا، یہ بعد میں آپ کے پاس پہنچا ہے، بوڑھے باپ کے آنسو پہلے عرش پر پہنچ چکے ہیں، عرش والے نے مجھے بھیجا ہے کہ میرے محبوب کو کہو کہ فیصلہ ایسا کرنا کہ میرے بوڑھے سفید ڈاڑھی والے بندے کی دل شکنی نہ ہو۔(خطبات دین پوری)

حضور وحی کے بغیر فیصلہ نہیں فرماتے تھے

و ما ينطق عن الهوىٰ إن هو إلّا وحي يوحىٰ

مصطفی ہرگز نہ گفتے تانہ گفتے جبرئیل

جبرئیل ہرگز نہ گفتے تانہ گفتے پروردگار

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹے کو فرمایا کہ جاؤ باپ کو لےکر آؤ، باپ بوڑھا تھا آنکھیں کمزور، آنسو جاری، اور بار بار کہتا: یا اللہ! حضور کے دربار میں جارہا ہوں، ذلیل نہ کرنا، دور سے آقا نے بوڑھے کو آتے ہوئے دیکھا، کھڑے ہوگئے، فرمایا: ابا جان رو مت، سفارش آچکی ہے، آگے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بوڑھے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ ابا جان بتا بیٹا تو یہاں آیا تھا تم کہاں گئے تھے؟ بوڑھے نے کہا کہ میں نے سوچا کملی والا تو شفیق ہے شاید فیصلہ بیٹے کے حق میں کردے نبوت کا فیصلہ آخری ہوتا ہے یہ آپ کے دربار میں آیا، میں اللہ کے دربار میں گیا، میں نے خدا سے کہا اے اللہ بوڑھا تو نے بنایا اور محتاج کردیا الٰہی کوئی ایسا فیصلہ کرانا کہ میری پریشانی ختم ہو جائے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’أنت و مالک لأبیک‘‘ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔

ایک شخص نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: ما حـق الوالدين؟ والدین کا حق کیا ہے؟ اس وقت نبی کریمؐ نے فرمایا تھا: ’’ھما جنتک و نارک‘‘ وہی تیری جنت اور وہی تیری دوزخ ہیں۔

نوجوانو!

آج اولاد والدین کے حقوق کو بھول گئی، ماں کو جھڑک دینا، پیارے باپ کے گریبان پر ہاتھ ڈال لینا اولاد کے لیے آسان ہو گیا، مسلمانو! یہی سبب ہے تمہاری ہلاکت و بربادی کا۔ والدین کی اہمیت کا اندازہ حضرت اویس قرنیؒ کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو والدہ کی خدمت سے کیا ملا؟

حضرت اویس قرنی کو والدہ کی خدمت سے کیا ملا؟

شہنشاہ دو جہاں تخلیق کون و مکاں صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری وقت تھا، آپ نے حضرت عمر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اویس کو میرا سلام پہنچا دینا اور میری امت کی مغفرت کی دعاء کرانا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیراہن حضرت اویس کو پیش کیا اور دعاء کے لیے کہا تو حضرت اویس وہ پیرا ہن لےکر کچھ فاصلے پر چلے گئے اور بارگاہ ربوبیت میں التجاء کی۔ اے رب دو جہاں جب تک میری سفارش پر امت محمدیہ کی مغفرت نہ کردی جائے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کالباس ہرگز نہ پہنوں گا کیونکہ تیرے نبی نے اپنی امت کو میرے حوالے کیا ہے ندائے غیبی آئی کہ ہم نے تیری سفارش سے کچھ افراد کی مغفرت فرمادی۔ آپ نے عرض کیا کہ پوری امت کی مغفرت فرمائی جائے۔ آخر اللہ تعالی نے آ پ کی سفارش پر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیٹروں کے بالوں کے بقدرلوگوں کی مغفرت فرمادی۔ یہ مرتبہ ان کو کہاں سے ملا؟ اپنی والدہ کے قدموں سے ملا۔ (تذکرہ اولیاء: ص ۳۵)

حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ!

معزز سامعین کرام!

جب حضرت موسی علیہ السلام بقصد شام انطاکیہ سے نکلے تو راستے میں تھک گئے۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کی کہ اس پہاڑ پر جاؤ وہاں میرا ایک نیک بندہ ہے اس سے سواری طلب کرو۔ حضرت موسی علیہ السلام وہاں گئے اس وقت وہ بندۂ خدا نماز میں مشغول تھا جب وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو موسی علیہ السلام نے کہا: ’’یا عبد الله، إني أريد شيئاً أركبه‘‘ اے اللہ کے بندے تجھ سے ایسی چیز کا سوال کرتا ہوں کہ جس کے ذریعہ سے میں اپنا سفر پورا کرسکوں۔

اس آدمی نے آسمان کی طرف نظر کی اور ایک بدلی سے کہا نیچے اتر آ اور جہاں حضرت موسی علیہ السلام جانا چاہیں ان کو وہاں پہنچادو، چنانچہ بدلی نے ایسا ہی کیا اور حضرت موسی علیہ السلام منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ اللہ نے موسی سے کہا اے موسی تم نے یہ کیوں معلوم نہیں کیا کہ یہ شخص کون تھا؟ حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار اب بتلا دیجیے۔ اللہ نے بتلایا اے موسی  یہ ایسا شخص تھا کہ اگر یوں بھی کہہ دیتا کہ اے میرے خدا اس زمین کا آسمان اور آسمان کی زمین بنادیں تو مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں ضرور ایسا کردیتا۔

حضرت موسی علیہ السلام نے معلوم کیا الہی یہ تو  بتاؤ یہ اتنا بڑا مرتبہ ان کو کہاں سے ملا؟ وحی آئی حضرت موسی کو بتلایا گیا کہ یہ ایسا شخص تھا جس نے اپنی والدہ کی آخری وقت کی دعا لے رکھی ہے اس کی والدہ نے اس کی خدمت سے خوش ہوکر اس کو یہ دعاء دی تھی کہ اللہ تیری حاجتوں کو پورا کرے جیسا کہ تو نے میری حاجتوں کو پورا کیا اللہ تعالی نے فرمایا اے موسی یہ ایسا شخص تھا کہ اگر یہ بھی کہہ دیتا کہ اے اللہ زمین کو آسان اور آسمان کو زمین بنادے تو میں ضرور بنا دیتا۔(والدین کے حقوق)

سامعین عظام!

ایک وقت وہ تھا کہ اولاد اپنے والدین کی خدمت کرکے آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا کرتی تھی۔ آج تو اولاد والدین کے احسانات کو فراموش کر دیتی ہے۔ اے انسان غور کر۔ تو کیسے بھول گیا کہ تجھے بھوک لگتی تھی، رحم والدین کو آتا تھا تجھے پیاس ستاتی تھی تو والدین پریشان ہو جایا کرتے تھے۔ تجھے سردی گرمی لگتی تھی، والدین کو ترس آتا تھا۔ اگر تجھے کوئی بیماری لاحق ہو جاتی تھی تو والدین کی نیند حرام ہو جایا کرتی تھی۔ تجھے کچھ دکھ تکلیف پہنچتی تو والدین اپنی راحت و آرام کو قربان کردیا کرتے تھے؛

لیکن آہ افسوس صد افسوس! کہ وہ اولاد جس کو والدین نے ایسے ایسے درد جھیل کر جنم دیا تھا کہ اگر اولاد پوری عمر بھی والدین کی خدمت کرے تب بھی ایک درد کا بدل ادا نہ کرسکے۔ وہی اولاد سب سے پہلے جس کو ظلم کا نشانہ بناتی ہے، وہ جس پر سب سے پہلے اولاد کے جبر و تشدد کا ہاتھ پڑتا ہے، وہ اس کے پیارے والدین ہوتے ہیں۔ آج کم بخت اولاد والدین کو ناراض کرکے رزق تلاش کرتی پھرتی ہے، حالانکہ رزق کی برکت کے دروازے کو والدین کی نافرمانی کے ذریعہ بند کر دیتی ہے۔

یہ ایک مسلّم حقیقت ہے جو چاہے کہ اس کی تجارت میں نفع ہو۔

جو چاہے کہ اس کی دوکان میں وسعت ہو۔

جو چاہے کہ اس کے مکان میں برکت ہو۔

تو اس کو چاہیے کہ وہ والدین کی فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کو لازم پکڑلے۔

والدین کی نافرمانی جنت کے داخلے کو مانع

میرے مسلمان بھائیو! آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل اعراف کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین کی مرضی اور اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہو گئے تھے اور شہید بھی ہو گئے تھے، ان کو جنت کے داخلے سے والدین کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم کے داخلہ سے شہادت فی سبیل اللہ نے روک دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز کاموں کے اندر بھی والدین کی رضامندی ضروری ہے؛ ورنہ جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔

حضرات گرامی!

کسی دانشمند کا قول ہے: ’’مَـنْ عَـقَّ والـدَيْـهِ عقَّہٗ وَلَدُہٗ‘‘ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے گا تو اس کی اولاد اس کی نافرمانی کر ے گی۔

چار آدمیوں کی خدمت سے بڑے بڑے لوگوں کو عار محسوس نہ کرنی چاہیے: اول والدین کی خدمت سے، دوم مہمان کی خدمت سے، سوم استاذ کی خدمت سے، چہارم عادل بادشاہ کی خدمت سے۔

دوستو دعا کیجیے اللہ رب العزت ہمارے معاشرے سے والدین کی مظلومیت کو ختم فرمائیں، اللہ ہم سب کو والدین کی نافرمانی کے وبال سے محفوظ رکھیں اور ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمائیں۔ (آمین)

یا الہی عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا

پر دل آزردہ تو نے ہمارا نہ کیا

ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیریں

لیکن تیری رحمت نے گوارہ نہ کیا

و ما علينا إلا البلاغ

یہ تقریر ’’اطیب الکلام‘‘ کتاب سے نقل کرکے تلاش کرنے والوں کی سہولت کے لیے یہاں شائع کی گئی ہے۔ کتا ب کی پی ڈی ایف فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اطیب الکلام پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے